ایک دن گلہریاں خوش گپیوں میں مشغول تھیں کہ پہاڑ غصیلے لہجے میں بولا ۔ تم سب روزانہ یہاں آکر اپنی اچھل کود سے مجھے تنگ کرتی ہو ، مجھے تمہارا یہاں آنا بالکل پسند نہیں ہے ۔ درحقیقت پہاڑ سے ان کی خودی برداشت نہیںہورہی تھی اور انہیں حسد بھری نظروں سے دیکھ رہتا تھا ۔ ان گلہریوں میں سے ایک گلہری جو عمر میں بڑی اور سمجھدار تھی اس نے آگے بڑھ کر پہاڑ سے پوچھا ۔
اچھے پہاڑ تم ہمیں برا بھلا کیوں کہہ رہے ہو ہم نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا ۔ میری بات مانو تم بھی ہمارے ساتھ لطف اندوز ہوا کرو ۔ گلہری کی بات سن کر پہاڑ اداس ہوگیا ۔ گلہری نے افسردگی کی وجہ پوچھی تو پہاڑ بولا ۔ میں تمہاری طرح اپنی جگہ تبدیل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اچھل کود کرسکتا ہوں ۔ میری جسامت اتنی بڑی ہے کہ میں اپنی مرضی سے جگہ بھی نہیں بدل سکتا ۔ تم سب روز یہاں آکر میری اداسی میں اضافے کا سبب بنتی ہو ۔ پہاڑ کی بات سن کر گلہری نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔ پہاڑ بھیا تم کیوں اداس ہوتے ہو تمہیں تو اللہ تعالی کا ہر وقت شکر بجالاناچاہئے کہ تمہاری بڑی جسمامت کی وجہ سے باقی مخلوق کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے تم آسمان پر تیرنے والے بادلوں اور ہواوں کا رخ بدل سکتے ہیں ۔طوفان بادو باراں کی تیز رفتاری میں کمی کا سبب بنتے ہو اس لئے تم بھی ہماری طرح خوش رہا کرو۔ گلہری کی بات سن کر پہاڑ اپنے سخت رویہ پر بہت شرمندہ ہوا اس نے آئندہ حسد کرنے سے توبہ کرلی ۔