درمیان میں کچھ وقفہ کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ منافرت کے واقعات میں دوبارہ اضافہ ہونے لگا ہے ۔ ملک کے کسی شہر میں کہیں مسلمانوں کو پھر گائے کے سرقہ کے الزامات میں نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں ہجوم کے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے کسی کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب سرکاری دفاتر میں بھی فرقہ واریت کا زہر سرائیت کرتا جا رہا ہے ۔ ایک پاسپورٹ آفس کا اہلکار کسی جوڑے کو محض اس لئے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کردیتا ہے کیونکہ شوہر مسلمان اور بیوی ہندو ہے ۔ ان دونوں نے اپنی پسند اور مرضی سے شادی کی تھی اور جب یہ پاسپورٹ دفتر اپنے پاسپورٹ کی کارروائی کے سلسلہ میں رجوع ہوئے تو انہیں عہدیداروں کی فرقہ پرستی کا نشانہ بنایا گیا ۔ اچھی بات تو یہ رہی کہ یہ جوڑا پڑھا لکھا تھا اور اس نے اپنے ساتھ ہوئی جانبدارانہ کارروائی کو ٹوئیٹر پر پیش کیا اور وزیر خارجہ سشما سوراج کی توجہ مبذول کروائی ۔ مرکزی وزیر خارجہ کی مداخلت کے بعد اس جوڑے کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تاہم اس میں عہدیدار کو ایسا لگتا ہے کہ بخش دیا گیا ہے ۔ اس عہدیدار کے خلاف تادیبی اور ڈسیپلن شکنی کی کارروائی ہونی چاہئے تھی لیکن ایسی ہوئی نہیں اور اس کا صرف تبادلہ کردیا گیا ۔ تبادلہ کسی طرح کی کارروائی نہیں ہوتی ۔ یہ صرف ایک انتظامی اقدام ہوتا ہے ۔ حالانکہ وزیر خارجہ کی مداخلت سے پاسپورٹ تو مل گیا لیکن عہدیدار کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی ۔ گذشتہ کچھ ہفتوں میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے والے واقعات میں قدرے کمی دیکھی گئی تھی ۔ خاص طور پر کرناٹک میںہوئے اسمبلی انتخابات کے دوران ایسے واقعات ملک کی دوسری ریاستوں میں پیش نہیں آئے ۔ لیکن چونکہ بی جے پی کرناٹک میں اپنے بل پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور کانگریس وہاںاتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تو ایسا لگتا ہے کہ ہندوتوا طاقتوں نے آئندہ انتخابات کی تیاریوں کا عملا آغاز کردیا ہے اور ان کے پاس منافرت پھیلانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا ہے جس کے بل پر و ہ عوام کی تائید حاصل کرسکیں۔
جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے اس سے قبل جیسے جیسے چھتیس گڑھ ‘ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور بہتر بنانے کیلئے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی نے مرکزی حکومت کی کارکردگی اور نریندر مودی کی امیج پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ تمام تر کوشش کے باوجود کرناٹک میں اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ اس کے علاوہ راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اس کیلئے اشارے مثبت نہیں رہ گئے ہیں۔ وہاں سے بھی اس کیلئے منفی رجحانات کی خبریں آ رہی ہیں اور ان ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت سے عوام کی ناراضگی واضح ہونے لگی ہے۔ ان حکومتوں کی کارکردگی سے ریاستوں کے عوام مطمئن نظر نہیں آتے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کو ابتداء میں یہ امید رہی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت اور ان کی مقبولیت کی بنیا دپر عوامی ناارضگی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اب ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے ۔ بی جے پی کو کرناٹک میں اس کا تلخ تجربہ ہوچکا ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے فرقہ پرست تنظیموں کو ایسا لگتا ہے کہ متحرک کردیا گیا ہے اور وہ اپنے ایجنڈہ کے مطابق حالات کو بگاڑنے اور سماج میں منافرت کو بھڑکانے کی کوششوں کے ساتھ دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں۔
ملک میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اگر سماج کے تانے بانے کو متاثر کیا جاتا ہے اور اس سے ملک پر ہونے والے اثرات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ اس سے ہر کسی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے لیکن بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیمیںسوائے حصول اقتدار کے کسی اور امر کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں ایسے میں اگر ملک کے عوام میں شعور بیدار ہوجائے تو ان تنظیموں کے ایجنڈہ کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ان کے عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے ۔ خود بی جے پی کو بھی اس طرح کی منفی سیاست سے گریز کرنے کی ضرورت ہے اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ انتخابات میں کامیابی وقتی ہوتی ہے لیکن ملک کی ترقی اور اس کا امن اور ملک کے عوام کی خوشحالی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔