زندہ دلان حیدرآباد کے زیراہتمام جلسہ ، رسم اجراء کا انعقاد
حیدرآباد ۔ 2 اکٹوبر ۔ ( راست ) زندہ دلان حیدرآباد کے زیراہتمام منعقدہ جلسہ میں مزاح نگار جناب پرویز یداﷲ مہدی کی خودنوشت سوانح ’’دروغ بر گردن راوی‘‘ کی رسم اجراء پدم شری جناب مجتبیٰ حسین کے ہاتھوں اردو ہال میں انجام پائی ۔ یہ پرویز یداﷲ مہدی کی ساتویں تصنیف ہے ۔ جس کی اشاعت سے مزاحیہ خودنوشت کی بھولی بسری روایت کا احیاء ہوا ہے ۔ جناب مجتبیٰ حسین نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ پرویز یداﷲ مہدی سات سمندر پار سے آئے ہیں اور طنز و مزاح کی دنیا میں ایک اہم ترین مقام رکھتے ہیں۔ میرا اس تقریب رسم اجراء میں آنا ضروری ہوگیا تھا ، باوجود اس کے کہ جلسوں وغیرہ سے اب میں اجتناب کررہا ہوں ۔ میرے امریکہ کے دو دوروں میں بھی پرویز نے شرکت کی اور مجھ پر بہت ہی اچھا خاکہ لکھا جو یادگار ہے۔ انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح کا عنوان ’’دروغ بر گردنِ راوی‘‘ رکھا ہے جسے اُلٹ کر ’’راوی بر گردنِ دروغ‘‘ کردینا چاہئے ۔ ان کی خودنوشت میں نے پڑھی ہے ۔ انھوں نے کہیں بھی کوئی بات غلط یا جھوٹ نہیں لکھی ہے۔ یہ ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں ۔ اس کتاب میں زیادہ تر حیدرآباد کی محفلوں اور ادبیوں ، شعراء کا ذکر ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی کی خودنوشت میں اینڈرسن کا جس طرح ذکر ملتا ہے ۔ اس طرح پرویز کی کتاب میں مدیر ’’شگوفہ‘‘ ڈاکٹر سید مصطفی کمال کی ادبی سرگرمیوں کا ذکر ہے ۔ مصطفی کمال ویسے بھی داد کے مستحق ہیں کہ صرف چار دن میں اتنی خوبصورت کتاب اغلاط سے پاک شائع کی ہے ۔ ڈاکٹر مصطفی کمال مدیر ’’شگوفہ‘‘ نے جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شاید یہ واحد مزاح نگار ہیں جنھوں نے نثر کی مروجہ تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ پرویز یداﷲ مہدی کی طنز و مزاح نگاروں میں انفرادیت یہ ہے کہ ان کے ہاں افسانوی اور غیرافسانوی نثر دونوں طرح کی تحریریں ملتی ہیں اور انھوں نے تخلیقی اظہار کے لئے طنز و مزاح کا اسلوب اختیار کیا۔ ناول ، ڈرامہ اور افسانے کے ساتھ انشائیہ ، رپورتاژ ، سفر نامہ ، کالم ، نثری پیروڈی اور خاکوں کے بعد اب ان کی خودنوشت سوانح عمری منظرعام پر آئی ہے ۔ زندہ دلانِ حیدرآباد کے ادبی اجلاسوں میں ابتدائی دور سے وہ مضامین سناتے رہے جنھیں سامعین نے ہمیشہ پسند کیا اور داد و تحسین سے نوازا ۔ ان کی سات کتابیں شائع ہوئی ہیں مزید چار پانچ کتابوں کا مواد ان کے پاس موجود ہے ۔ پروفیسر اشرف رفیع نے کہاکہ یہ پہلی خود نوشت سوانح عمری ہے جس میں مصنف نے اپنی ذات کو محور بناکر بات نہیں کی ہے بلکہ دوسروں کے بارے میں تفصیل پیش کی ہے ۔ افراد خاندان ہوں کہ دوست احباب ہوں ادب یا فلم کے ہمسفر ہوں مزاح کا دامن کہیں نہیں چھوڑا ہے ۔ والد کا ذکر یا اپنے معتبر رشتہ دار جیسے ماموں وغیرہ کی بات کی جارہی ہو تو انھوں نے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مزاح کے پہلو کو بھی ساتھ ساتھ پیش کیا ۔ زبان پیاری ہے اور بچپن کے واقعات کھیل کود اور دکنی محاورات بھی استعمال کئے ہیں جیسے ’’بھئی بھتور بھئی بھتور تم جاتے کتنی دور ‘‘وغیرہ ۔ ڈاکٹر محمد علی رفعت نائب صدر زندہ دلان حیدرآباد نے کہا کہ میرا اور پرویز بھائی کا دیرینہ تعلق خاطر رہا ہے ۔ وہ میرے پسندیدہ مزاح نگار ہیں ۔ ان کی تحریروں میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کی تحریریں یاد ہوجاتی ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ 2009 ء میں ’’شگوفہ‘‘ کا پرویز یداﷲ مہدی نمبر شائع ہوا تھا جس کے وہ مہمان مدیر تھے ، ڈاکٹر ممتاز مہدی شریک کار تھے ۔ جناب یوسف روش نے منظم تہنیت پیش کی ۔ تقریب سے پروفیسر وہاب قیصر ، مضطر مجاز اور پرویزیداﷲ مہدی نے بھی مخاطب کیا ۔ غلام احمد نورانی معتمد عمومی زندہ دلانِ حیدرآباد نے جلسہ کی کارروائی عمدگی سے چلائی اور ان کے شکریہ پر جلسہ اختتام پذیر ہوا ۔ ادبا اور شعراء کی کثیرتعداد نے اس جلسہ میں شرکت کی ۔