پرانے شہر کے ترقیاتی پراجکٹس پر حکومت کی پہلوتہی

عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی سے بھی مزید تعطل کا شکار ، موسیٰ ندی پراجکٹ کا وعدہ وفا نہ ہوسکا
حیدرآباد۔ 28جولائی (سیاست نیوز) ریاستی حکومت پرانے شہر کی ترقی سے متعلق پراجکٹس کی تکمیل میں سست روی کا مظاہرہ کرتی ہے یا پراجکٹس کی تکمیل سے حکومتوں کو دلچسپی نہیں ہوتی یا پھر ان پراجکٹس کی تکمیل میں مقامی عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی کے سبب یہ پراجکٹس تعطل کا شکار ہوتے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد حکومت تلنگانہ کی جانب سے کئی پراجکٹس کا اعلان کرتے ہوئے ان پر عملی جامہ پہنانے کے اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے لیکن پرانے شہر میں موسی ندی کو خوبصورت بنانے کے منصوبے کے متعلق اعلانات آج بھی جوں کے توں ہیں بلکہ اس پراجکٹ کا آغاز تلگو دیشم دور حکومت میں ہوا تھا اور اس کے بعد کانگریس حکومت کی دو معیاد مکمل ہو گئیں لیکن موسی ندی کو خوبصورت بنانے کا خواب اب تک بھی ادھورا ہی ہے بلکہ اس پراجکٹ کی تکمیل کیلئے کسی بھی محکمہ میں سنجیدگی نظر نہیں آتی بلکہ اس پراجکٹ کے نام پر کروڑہا روپئے خرچ کئے جا چکے ہیں لیکن اس کے اب تک بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ رود موسی کی جو حالت 15-20سال قبل تھی اس سے زیادہ ابتری اب دیکھی جارہی ہے۔ موسی ندی جو کسی زمانے میں ندی ہوا کرتی تھی اب نالہ بنی ہوئی ہے اور اس مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق مسٹر کے ٹی راما راؤ نے اس سلسلہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معائنہ کیا لیکن اس کے باوجود کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موسی ندی کو خوبصورت بنائے جانے کیلئے تیار کردہ پراجکٹ کیلئے مزید 3ہزار کروڑ روپئے درکار ہیں اور اس پراجکٹ کیلئے حکومت کی منظوری حاصل کرنے کے بعد ہی تیز رفتار کاموں کا آغاز عمل میں لایا جا سکتا ہے۔اس پراجکٹ کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس پراجکٹ میں مزید ایس ٹی پیز کی تعمیر عمل میں لائی جائے تاکہ موسی ندی کے پانی کو صاف کرنے کا عمل بہتر بنایا جا سکے۔ موجودہ ایس ٹی پیز ندی میں موجود پانی کو مکمل طور پر صاف کرنے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ جو ایس ٹی پیز ہیں ان کے ذریعہ صاف کیا جانے والا پانی دوبارہ گندے پانی میں ملتے ہوئے چند میٹر بہنے کے بعد گندے پانی میں تبدیل ہورہا ہے جو کہ ندی کی صفائی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ان ایس ٹی پیز کے ذریعہ ندی میں پہنچنے والا نصف پانی ہی صاف ہو پا رہا ہے۔ تفصیلات کے بموجب موسی ندی میں جملہ 51نالوں کے ذریعہ گندگی پہنچ رہی ہے جسے ایس ٹی پیز سے جوڑتے ہوئے ندی کے پانی کو صاف کئے جانے کا منصوبہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے موسی ندی کو ڈرینیج کے پانی سے پاک بنانے کی حکمت عملی تیار کی جا چکی ہے اور اس منصوبہ کو چیف منسٹر کی منظوری کا انتظار ہے۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں بھی اس پراجکٹ پر کروڑہا روپئے خرچ کئے گئے لیکن ترقیاتی عمل کے کوئی آثار اب باقی نہیں ہیں بلکہ ربر ڈیم کی تعمیر مچھروں کی افزائش کی آماجگاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں اگر حکومت تلنگانہ کی جانب سے تیز رفتار ترقیاتی عمل شروع کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ممکن ہے کہ برسہا برس سے جاری اس پراجکٹ کو تکمیل کیا جا سکے۔