حیدرآباد ۔ 27 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز) : جی ایچ ایم سی انتخابات میں مجلس کے خلاف کانگریس کا پہلی مرتبہ سنجیدگی سے مقابلہ کے لیے اترنا مجلس قیادت کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس برسوں اقتدار پر رہی اور اس دوران دونوں پارٹیوں کا اتحاد رہا جس سے پروفیسر ناگیشور راؤ کے مطابق دونوں جماعتوں کو فائدہ ہوا ۔ لیکن اب بلدی انتخابات میں کل کے حلیف ایکدوسرے کے مقابل ہیں ۔ کانگریسی قائدین وقفہ وقفہ سے اپنی سابق حلیف جماعت اور اس کے قائدین کو شرمندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ۔ صدر تلنگانہ پی سی سی مسٹر اتم کمار ریڈی ، قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر اور مجلس سے برسوں وابستہ رہنے کے بعد اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے محمد غوث پرانا شہر میں شدت کے ساتھ مجلس کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب بقول محمد علی شبیر کے کانگریس امیدواروں کے ناموں کو مجلسی قیادت قطعیت دیا کرتی تھی ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی میں کانگریس پرانا شہر سے مجلس کے خلاف ڈمی امیدواروں کو مقابلہ میں اتارتی رہی لیکن اب کانگریس نے پرانا شہر کے بدلتے سیاسی منظر عوام کے بدلتے تیوروں کو بھانپ لیا ہے ۔ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ پرانا شہر میں متبادل نہ ہونے کے باعث غریب عوام مجلس کی تائید کررہے تھے جب کہ شہر کے اس حصہ میں جو شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی پہچان ہے ۔ کانگریس کے حق میں ووٹ کا استعمال کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے لیکن مجلس سے اس کی مفاہمت کے باعث ماضی میں اس کے امیدوار عوامی تائید سے محروم رہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلم ووٹ بنک متاثر ہونے کے خوف سے دوسری سیکولر جماعتیں مجلس کا مقابلہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی رہی ۔ سی پی آئی ، سی پی ایم نے کچھ عرصہ تک اس تصور کو ختم کرنے کی اچھی کوشش کی لیکن اس کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا ۔ سال 2014 کے اسمبلی انتخابات میں تلگو دیشم کا امیدوار حلقہ چارمینار سے کامیاب ہوتے ہوتے رہ گیا جس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اگر پرانا شہر میں مجلس کا سنجیدگی سے مقابلہ کیا جائے تو اسے شکست سے بھی دوچار کیا جاسکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان بلدی انتخابات میں کانگریس امیدوار اپنی کامیابی کے ذریعہ مجلسی قیادت کے زعم کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے ۔ پروفیسر ناگیشور راؤ کے مطابق پرانا شہر میں صرف ہندو ہی مجلس کے مخالف نہیں بلکہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بالخصوص تعلیم یافتہ لوگ بھی مخالف ہیں جب کہ اس کے لیے سب سے بڑی پریشانی اس کے کیڈر میں پھیلی بے چینی ہے ۔ جس کا ثبوت مجلس سے محمد غوث جیسے سینئیر قائد کی علحدگی ہے ۔ کانگریس نے بڑی ہشیاری کے ساتھ مجلس کا متبادل بننے کی کوشش کی ہے اگر اسے ان کوششوں میں تھوڑی بہت بھی کامیابی ملتی ہے تو شائد یہ مجلس کا نہیں بلکہ مجلسی قیادت کے زوال کا آغاز ہوگا ۔ اس صورتحال میں اگر ٹی آر ایس بھی مجلس سے مفاہمت کی بجائے سنجیدگی سے مقابلہ کرتی تو پرانا شہر میں بڑے پیمانے پر سیاسی انقلاب برپا ہوسکتا ۔ بہر حال پرانا شہر میں کانگریس کی سرگرمیوں میں شدت سے مجلسی قائدین میں پھیلی بے چینی سے مشہور محاورہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے سچ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اسی محاورہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہ آئے اپنے سے کسی کو اونچا نہیں مانتا یعنی اپنے سے زبردست کا مقابلہ ہونے پر اسے اپنی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے ۔۔