پھرمجھے دیدہ تر یاد آیا
دل جگر تشنہ فریاد آیا
پاکستان میں پھر ٹکراؤ کی صورتحال
پاکستان میں حالات ایک بار پھر بگڑنے لگے ہیں۔ داخلی طور پر جہاں پاکستان کو دہشت گردوں کے خطرا ت کا سامنا ہے اور شمالی وزیرستان میں سرکاری فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ چل رہا ہے وہیں اب حکومت مخالف احتجاج کی وجہ سے صورتحال مزیدابتر ہوتی جائیگی ۔ انتخابات میں دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے تحریک انصاف پارٹی کے سربراہ عمران خان نے پاکستان کے یوم آزای کے موقع پر 14 اگسٹ کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اس کیلئے تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے کئی امیدوار انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتے تھے لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت والی پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں جن کے نتیجہ میں ان کی پارٹی کو شکست ہوئی تھی ۔ ان کا ادعا ہے کہ ان کی پارٹی نے انتخابات میں دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے بھی بارہا نمائندگی کی تھی لیکن حکومت اس کیلئے تیار نہیں ہے ایسے میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے سوا ان کے پاس اب کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے ۔ عمران خان کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے حکومت کی جانب سے بھی بڑے پیمانے پر تیاریاں کی جا رہی ہیں اور ٹکراؤ و تصادم کی صورتحال بنتی جارہی ہے ۔ حکومت پاکستان کیلئے اس احتجاج کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں داخلی طور پر ایک بار پھر نراج اور بدامنی کی کیفیت میں اضافہ ہوگا ۔ جہاںعمران خان اپنے الزامات پر اٹل ہیں وہیں حکومت ان کو درست ماننے سے مسلسل انکار کر رہی ہے ۔ حکومت اس احتجاج کو دبانے اور کچلنے کیلئے اپنے طور پر انتظامات میں مصروف ہوگئی ہے ۔ دارالحکومت اسلام آباد کو پہلے ہی فوج کے کنٹرول میں یا جاچکا ہے ۔ دوسرے شہروں میں بھی بڑے پیمانے پر سکیوریٹی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے نمائندے قبائلی لیڈروں سے بھی مشاورت میں مصروف ہیں اور عمران خان کو بھی احتجاج سے دستبردار ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے لیکن اس میں کامیابی کی امید صفر ہی کہی جاسکتی ہے ۔
حکومت کو جہاں عمران خان کے احتجاج کے منصوبے سے مسائل کا سامنا ہے وہیں مذہبی رہنما اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ مولانا طاہر القادری کی جانب سے بھی احتجاج کا اعلان کریا گیا ہے بلکہ یہ احتجاج شروع بھی ہوچکا ہے اور مولانا کے حامیوں کا پولیس کے ساتھ ٹکراؤ بھی ہورہا ہے ۔ کچھ کارکن اس احتجاج میں ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ مولانا طاہر القادری بھی پاکستان کی موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومت کو زوال کا شکار کرنے کیلئے انقلابی تحریک کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ در پردہ عمران خان اور مولانا طاہر القادری کے مابین اتفاق رائے ہے اور وہ حکومت پر دو محاذوں سے یلغار کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے احتجاج کو کچلنے کیلئے منہاج القرآن اور تحریک انصاف پارٹی کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کی جائیں گی ۔ بعض گوشے یہ ادعا بھی کرتے ہیں کہ حکومت نے گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے جس سے بچنے کیلئے ان دونوں تنظیموں کے قائدین اور کارکن فی الحال روپوشی اختیار کر رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکومت کیلئے مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے اور نواز شریف حکومت کیلئے صورتحال سے نمٹنا آسان نہیں کہا جاسکتا ۔
تحریک منہاج القرآن ہو کہ تحریک انصاف پاکستان ہوں یا پھر حکومت پاکستان سبھی کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ یہ احتجاج پاکستان کے داخلی حالات کیلئے بہتر نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے وہاں درپیش مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وہاں عوام کو جو مسائل درپیش ہیں اور جن حالات میں عوام زندگی گذارنے پر مجبور ہیں وہ اس طرح کے احتجاج یا سیاستدانوں کے آپسی ٹکراؤ کی وجہ سے بہتر نہیں ہوسکتے ۔ سبھی سیاسی جماعتوں اور حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹکراؤ کی صورتحال سے بچنے اور اسے ٹالنے کیلئے کوئی حکمت عملی تلاش کریں تاکہ سبھی گوشوں کو طمانیت محسوس ہوسکے اور پاکستانی عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی سمت میں کسی طرح کی پیشرفت ہوسکے ۔ غربت ‘ افلاس ‘ بیماریاں اور بنیادی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل پر توجہ دیتے ہوئے انہیں حل کرنے کی تمام گوشوں کو کوشش کرنی چاہئے ۔ حکومت اور حکومت کے مخالفین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے اگر احتجاج کی راہ اختیار کی جاتی ہے اور حکومت واجبی مطالبات کو اپنی بقا کیلئے نظر انداز کرتی ہے تو یہ صورتحال نہ پاکستان کے حق میں بہتر ہوگی اور نہ پاکستانی عوام کے حق میں بہتر کہی جاسکتی ہے ۔