پاکستان میں نفاذ شریعت کا مطالبہ

مطالبات تو کرنا بہت ہی آساں ہے
جو اتفاق رائے ہو پیدا تو کوئی بات بنے
پاکستان میں نفاذ شریعت کا مطالبہ
حکومت پاکستان کی طالبان سے مذاکرات کی ناکامی اور شرائط کے آگے بے بسی کے مظاہرہ نے ایک اور سانحہ کی جانب قدم اُٹھ گیا ہے جس ملک میں امن ندارد ہے وہاں نسلی تصادم ، دہشت گردی ، انتہاپسندانہ سرگرمیاں روکی نہیں جاسکتی ہیں تو پھر ہزاروں پاکستانیوں کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگی ۔ پاکستان طالبان تحریک سے مذاکرات کی امید رکھنے اور ان مذاکرات پر اعتراض کرنے والوں کے درمیان ایک بحث چھڑگئی ہے کہ آیا حکومت آخر طالبان سے سختی سے پیش آنے کے بجائے امن مذاکرات کے بہانے نرمی سے کام کیوں لے رہی ہے ۔ پاکستان میں بڑھتی بدامنی کے لئے طالبان کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے ۔ پاکستان کے عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والی یہ تحریک عملی طورپر امن مذاکرات کے قابل نہیں ہے ۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف طالبان کو سبق سکھانے کے لئے فوجی آپریشن کی حمایت کی جاتی ہے تو وہیں اس کے ذڑیعہ معاملے سے نمٹنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔طالبان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سب سے پہلے شرعی حکمرانی کے فرائض انجام دے ۔ طالبان اس ملک کے آئین کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے ، اس مسئلہ پر یہ بحث ہورہی ہے کہ جب طالبان اس ملک کے دستور کو تسلیم کرنے تیار ہی نہیں ہیں تو ان کے ساتھ مذاکرات کی میز سجانا کیا معنی رکھتا ہے ۔ طالبان اپنی لڑائی کو جائز مانتے ہیں ، شریعت کے نفاذ کے لئے کسی انسان کا خون کرنا شریعت ہے تو پھر طالبان سراسر حکومت سے جنگ کے موڈ میں ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ سچائی بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان نے اپنا سیاسی چہرہ بھی بنالیا ہے اور وہ اپنی بات پارلیمنٹ تک لے جانے میں کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ میں طالبان حامی ارکان بھی موجود ہیں۔ نواز شریف حکومت کو اقتدار حاصل کرکے 7 ماہ پورے ہوچکے ہیں ، اس مدت کے دوران انھوں نے ممنوعہ طالبان تحریک پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ حکومت کی نرمی کی وجہ سے طالبان پہلے سے زیادہ منظم ہورہے ہیں جو عام شہریوں کیلئے تشویشناک امر ہے ۔ نواز شریف حکومت کو اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے ساتھ امن و امان کی برقراری کو یقینی بنانا ضروری ہے ۔ اسے اپنی آئینی ذمہ داری کو بروئے کار لانا ضروری ہے لیکن طالبان نے پاکستان کے آئین کو ٹھوکر میں رکھا ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیاں جاری ہیں ۔ بلاشبہ مذاکرات کی ابتداء حوصلہ افزاء رہی لیکن حکومت اور طالبان کی جانب کے بعض ارکان کے بیانات نے معاملے کو نیا رخ دیا ہے ۔لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز مذاکراتی کمیٹی کے رکن بھی ہیں انھوں نے پاکستان میں نفاذ شریعت کی شرط کو قبول کرنے تک مذاکرات سے علحدگی کا اعلان کرکے امن کوششوں کو کمزور بنادیا تھا۔ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی ضد کے ساتھ امن مذاکرات نہیں کی جاسکتی ۔ حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ دستور میں رہتے ہوئے ہی مذاکرات کرسکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان جن سے مذاکرات کررہی ہے وہ اس ملک کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو حکومت کا آئین پر رہ کر مذاکرات کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ،یا تو طالبان ک اپنا کٹر موقف نرم کرنا ہوگا یا پھر حکومت پاکستان آئین سے ہٹ کر مذاکرات کرے ۔ پاکستان کو ایک اسلامی ملک قرار دیا جاتا ہے ، وہاں طالبان کو شریعت کے نفاذ کیلئے شرائط رکھنی پڑ رہی ہیں تو اس ملک کے سماجی اور معاشرتی زندگیوں میں پائی جانے والی خرابیوں اور شریعت کے نفاذ میں ناکامی کا مظہر ہے ۔ طالبان نے اس سے پہلے امن مذاکرات کیلئے کوئی خاص شرط نہیں رکھی تھی اور نہ ہی نفاذ شریعت کو بات چیت کا اہم ایجنڈہ بنایا تھا ۔ پاکستان کے دستور کے حدود میں طالبان کی سرگرمیاں تشویشناک ہیں تو اس کو کس طرح روکا جاسکتا ہے یہ غور طلب ہے ۔ پرویز مشرف کے دور میں لال مسجد میں جو کچھ ہوا وہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے بڑی بھیانک غلطی تھی ۔ لال مسجد کارروائی کے دوران جو طلباء یہاں سے پاکستان میں پھیل گئے تھے انھوں نے ہی اپنی ٹوپیوں میں نفاذ شریعت کے جگنو پوشیدہ رکھے تھے ۔ لال مسجد کا واقعہ ایک ناعاقبت اندیشانہ کارروائی تھی جس کاخمیازہ پرویز مشرف بھگت چکے ہیںمگر نواز شریف حکومت کو بھی اس بدترین واقعہ کی سنگینیوں کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے تو دہشت گردی میں محصور پاکستان کی صورتحال مزید نازک ہوجائے گی ۔ جن طالبان کو پاکستان کے قبائیلی طبقہ کی تائید حاصل ہے وہ کٹرپسندی نظریہ رکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ قبائیلی ہی جہادیوں کو فروغ دیتے ہیں اس لئے مذاکرات کیلئے حکومت کی شرط کو خاطر میں نہیں لایا اور اپنے علاقوں سے ’’جہادیوں‘‘ کو برخاست کرنے سے انکار کردیا ۔ کٹرپسند مسلمان اور اعتدال پسند پاکستانی شہری کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان میں طالبان حامیوں کے کئی گروہ ہیں اور اس میں مذاکرات کے معاملے پر اختلافات والے بھی موجود ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ گروپ گروہ طالبان دستورشوریٰ کے فیصلوں کے پابند ہوںگے ۔