اسلام آباد۔ 8 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کو پھانسی پر لٹکانے کا سلسلہ جاری ہے جہاں مزید دو قیدیوں کو آج پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور اس طرح اب تک پھانسی پانے والے قیدیوں کی جملہ تعداد 70 ہوگئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال ڈسمبر میں طالبان کے ذریعہ پشاور کے ایک فوجی اسکول پر حملہ کے بعد سزائے موت پر عائد امتناع برخاست کردیا گیا تھا۔ اس حملہ میں زائد از 150 افراد جن میں اکثریت طلباء کی تھی، جان بحق ہوگئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق امیر حمزہ کو بلوچستان کی مچھ جیل میں ایک شخص کو 1995ء میں قتل کرنے کی پاداش میں پھانسی پر لٹکایا گیا اور گزشتہ سات سال کے دوران بلوچستان میں پھانسی پر لٹکا پا جانے والا یہ پہلا قیدی ہے جبکہ سکندر نامی دوسرے قیدی کو بہاولپور کی سنٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ اسے کورٹ مارشل کے ذریعہ سزائے موت سنائی گئی تھی کیونکہ وہ ایک فوجی تھا اور 2002ء میں اس نے اپنے ہی ایک ساتھی فوجی کو ہلاک کردیا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ایک بار پھر ضروری ہے کہ پاکستان میں اب بھی 8,000 ایسے قیدی ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے
اور وہ اس پر عمل آوری کے لئے اپنی زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ قبل ازیں صرف دہشت گردی میں ملوث سزائے موت پانے والوں کو ہی پھانسی پر لٹکایا جاتا تھا تاہم 10 مارچ کو حکومت پاکستان نے ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی جرم کے ارتکاب میں سزائے موت پانے والوں کو مستوجب پھانسی قرار دیا تھا۔ پھانسی کی سزا کی تائید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صرف ایسی طرح دہشت گرد کارروائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے جبکہ انسانی حقوق گروپ سزائے موت کو غیرانسانی فعل قرار دیتے ہوئے اس کے زبردست نقاد ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض سنگین جرائم کا ارتکاب نہ بھی کیا گیا ہو تو پولیس والے ملزمین کو اذیتیں دے دے کر ان سے اعتراف جرم کروالیتے ہیں جس کا انہوں نے کبھی ارتکاب کیا ہی نہیں لہٰذا فوجداری معاملات حصول انصاف کا طریقہ پاکستان میں انتہائی ناقص ہے۔