پاکستان، قطر اور ترکی دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک

l قطر حماس کی فنڈنگ میں مصروف
l پاکستانی حکام اسامہ بن لادن کی موجودگی
سے لاعلم نہیں تھے
l سابق پنٹگان عہدیدار مائیکل روبین کے
مضمون میں انکشاف
واشنگٹن ۔ 2 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) پنٹگان کے ایک سابق عہدیدار نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کیلئے اب وقت آ گیا ہیکہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ قطر اور ترکی کو دہشت گردی کی سرپرست کرنے والے ممالک قرار دے۔ مائیکل روہین جو امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک ریسڈنٹ اسکالر ہیں، نے واشنگٹن اگزامنر میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں کہا کہ پاکستان کے محاسبہ کا وقت آ گیا ہے۔ جو بھی ہورہا ہے وہ پاکستان کی سرپرستی میں ہورہا ہے اور اگر وہ تحدیدات سے بچنا چاہتا ہے تو یہ لازمی ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین پر پنپنے والے دہشت گردوں کو سخت سے سخت سزائیں دیتے ہوئے جیل میں ڈالے اور ان عناصر کو بھی نہ بخشے جو دہشت گردی کیلئے فنڈس فراہم کرتے ہیں انہیں ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ یاد رہیکہ 1979ء سے ہی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (جو ہندوستان کی وزارت خارجہ کی مماثل ہے) نے ایسے ممالک کی ایک فہرست بنا رکھی ہے جو دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہیں۔ جہاں تک موجودہ وزیرخارجہ کا سوال ہے تو انہوں نے اب تک لیبیا، عراق، جنوبی یمن، شام، کیوبا، ایران، سوڈان اور شمالی کوریا کو دہشت گدی کی سرپرستی کرنے والے ممالک قرار دیا ہے کیونکہ ایسے ٹھوس ثبوت ہیں جن کے تحت یہ کہا جاسکتا ہیکہ ان ممالک سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردنہ کارروائیاں انجام دینے اپنا پورا تعاون پیش کیا ہے۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہیکہ گزرتے دنوں کے ساتھ مندرجہ بالا ممالک میں سے کئی ممالک کا نام فہرست سے حذف کردیا گیا لیکن تین نام اب بھی فہرست میں موجود ہیں اور وہ ہیں ایران، شام اور سوڈان۔ البتہ روبین نے اپنے مضمون میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت جب دنیا بھر میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں لہٰذا امریکہ نے قبل ازیں جو فہرست تیار کی تھی اسی کو بحال کرنے کی ضرورت ہے اور دوبارہ ان ممالک کے نام شامل کرلئے جائیں۔ جو دہشت گردی کے بالواسطہ یا بالراست ذمہ دار ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ ممالک امریکہ کے حلیف ہیں یا نہیں۔ روبین نے جن تین ممالک کو فہرست میں شامل کرنے پر زور دیا وہ پاکستان، قطر اور ترکی ہیں۔ انہوں نے صدر ترکی رجب طیب اردغان پر دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے مربوط تنظیموں کی اندرون شام مدد کرنے کا الزام لگایا۔ دوسری طرف قطر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ نہ رف حماس جیسی تنظیم کا چیف بینکر ہے بلکہ شام اور لیبیا میں سخت گیر القاعدہ سے ملحقہ تنظیموں کا بھی مالی تعاون کرتا ہے۔ پاکستان بھی اپنا نام اس فہرست میں شامل ہونے سے اب تک بچتا رہا ہے لیکن اب بہت ہوچکا !کیونکہ پاکستان کی جاسوس ایجنسی آئی ایس آ:ی سے وابستہ قائدین طالبان کی کھلم کھلا مدد کرتے ہیں اور متعدد دیگر دہشت گرد گروپس جیسے جیش محمد کی سرگرمیوں پر نرم رویہ اختیار کرتے ہیں اور ان کی مدد بھی کرتے ہیں جس نے ٹائمز اسکوائر پر دھماکہ کے ذمہ دار کی خدمات حاصل کی تھیں اور لشکرطیبہ جس نے 2001ء سے ہندوستان کی پارلیمنٹ اور 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملے کئے تھے۔ مسٹر روبین نے مزید کہا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں رہا کرتا تھا۔ کیا یہ ممکن ہیکہ اس کی موجودگی کے بارے میں پاکستان حکام کو پتہ نہیں ہوگا؟ انہوں نے کہاکہ صرف خانہ پُری کیلئے پاکستان میں دہشت گرد گروپس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جنہیں سنجیدہ طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کیلئے پاکستانی جیلوں کے دروازے پوری طرح نہیں کھل پاتے بہ الفاظ دیگر ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جاتی اور جیل کو وہ اپنا گھر آنگن سمجھتے ہیں۔ بش اور اوباما انتظامیہ نے شاید پاکستان کو اتنی ڈھیل اس لئے دی کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے لاجسٹیکل تعاون کے خواہاں تھے۔ تاہم پاکستان کو اس نوعیت کی کھلی چھوٹ دینا بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ امریکہ کی جانب سے کروڑہا ڈالرس کی امداد کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریز کیا۔