ملزمین کو تحقیقاتی ایجنسی کے انتخاب کا اختیار نہیں : سپریم کورٹ
نئی دہلی ۔ /28 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے بھیما کورے گاؤں تشدد کیس میں مہاراشٹرا پولیس کی طرف سے پانچ جہد کاروں کی گرفتاری کے مسئلہ پر مداخلت کرنے سے انکار کردیا اور گرفتاری کی تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم ( ایس آئی ٹی) کے تقرر کی درخواست کو مسترد کردیا ۔ چیف جسٹس دیپک مصرا کی قیادت میں تین ججوں کی بنچ نے 2:1 سے اس درخواست کو مسترد کردیا جس میں جہد کاروں کی فوری رہائی کی استدعاء کی گئی تھی ۔ اس بنچ نے ان پانچ جہد کاروں ورا ورا راؤ ، ارون فریرا ، ورنن گونزالویز ، سدھا بھردواج اور گوتم نولکھا کی گھر پر نظربندی میں مزید چار ہفتوں کی توسیع کی ۔ یہ جہد کار /28 اگست کو گرفتاری کے بعد سے عدالت عظمی کے حکم پر گھروں پر نظر بند ہیں ۔ اکثر یتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمین یہ انتخاب نہیں کرسکتے کہ اپنے خلاف جاری کیس کی تحقیقات کیلئے کونسی ایجنسی ہونی چاہئیے ۔ نیز یہ محض سیاسی نظریات پر اختلاف کی بنیاد پر گرفتاری کا ہی معاملہ نہیں ہے ۔ بادی النظر میں ممنوعہ سی پی آئی (ماؤنواز ) سے روابط ظاہر کرنے مواد دستیاب ہے ۔ جسٹس کانویلکر نے چیف جسٹس آف انڈیا اور خود اپنی طرف سے یہ اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا ۔ جبکہ جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ نے کہا کہ وہ دیگر دو ججوں کے نظریات سے متفق نہیں ہوسکتے ۔ جسٹس چندرا چوڑ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ پانچ ملزمین کو محض اختلاف و ناراضگی کی سرکوبی کے لئے حکومت کی کوشش کے طور پر گرفتار کیا گیا ہے ۔
تاہم اکثریتی فیصلے نے کہا کہ پانچ جہدکاروں کو محض اختلاف یا مخالفت کے اظہار پر ہی گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ممنوعہ سی پی آئی (ماؤ نواز) سے ان کے رابطوں کو بادی النظر میں ظاہر کرنے کیلئے مواد دستیاب ہے ۔ اکثریتی فیصلے نے مورخہ رومیلا تھاپر اور دوسروں کی طرف سے دائر کردہ مفاد عامہ کی درخواست سے بھی اتفاق نہیں کیا جس میں پانچ جہد کاروں کی فی الفور رہائی کی استدعاء کی گئی تھی ۔