پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس

دھڑکنیں بڑھ گئی ہیں پھر دِل کی
لے کے کڑوی دوا وہ آتے ہیں
پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس
مرکز میں قائم نریندر مودی حکومت کے پہلے بجٹ کی پیشکشی کیلئے پارلیمنٹ اجلاس کا آج آغاز ہو رہا ہے ۔ اس اجلاس کی کئی طرح سے اہمیت ہے ۔ اس اجلاس میں حکومت کو پہلی مرتبہ عوام کیلئے اپنے منصوبوں اور عزائم کا اظہار کرنا ہے تو اسی اجلاس میں حکومت کو اپوزیشن کی تنقیدوں اور مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔ مرکز میں این ڈی اے حکومت کو قائم ہوئے ایک ماہ سے کچھ زیادہ کا عرصہ ہوا ہے اور اس ایک ماہ میں اسے اب تک صرف اقتدار کے مزید لوٹنے کا موقع ملا ہے ۔ اب اس کی عملی مشکلات کا آغاز ہوا ہے ۔ حالانکہ بجٹ کی تیاری ارون جیٹلی جیسے تجربہ کار وزیر نے کی ہے اور ماہرین کی خدمات بھی حکومت کو حاصل رہی ہیں لیکن اسے عوام کی توقعات کو پورا کرنے کی جو کوششیں کرنی تھیں وہ بہت اہمیت کی حامل تھیں لیکن یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ حکومت اپنی اس طرح کی کوششوں میں کامیاب ہو پائیگی یا نہیں ۔ اب تک کے حکومت کے فیصلوں سے جو اشارے ملے ہیں ان کے مطابق تو حکومت کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ حکومت نے پارلیمنٹ میں عام بجٹ پیش کرنے سے قبل ہی عوام کو کڑوی دوا کی عادت ڈال دی ہے ۔ حکومت نے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں ریلوے مسافر کرایہ میں اضافہ کیا ۔ شرح باربرداری کو بڑھادیا گیا ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھادی گئیں۔ اب پکوان گیس اور کیروسین کی قیمتوں میں اضافہ کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کسی طرح کی کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ترکاریاں بھی عوام کی پہونچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ پیاز ایک بار پھر سارے ملک کے عوام کے آنسو بہانے لگی ہے ۔ میوہ جات تو عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہی ہیں۔ ادویات بھی مہینگی ہوتی جا رہی ہیں۔ دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ تیل اور چاول کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول دکھائی نہیں دیتا ۔ اب پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور ریلوے شرح باربرداری میں اضافہ کے بعد افراط زر کی شرحیں اور بڑھیں گی اور مہینگائی میں اضافہ ہوگا ۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس حکومت کیلئے آسان نہیں ہوسکتا ۔ اسے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ حکومت کے سامنے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک ایجنڈہ ہے ۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے یہ وعدے کئے تھے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم اور بہتر بنایا جائیگا اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہونچائے جائیں گے ۔ عام آدمی کو حکومت سے کوئی راحت ملنے سے پہلے عام آدمی کی رہی سہی سکت کو بھی حکومت نے اپنے فیصلوں سے ختم کردیا ہے ۔ عام آدمی اب بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی حاصل کرپائے تو یہ اس کیلئے بڑی بات ہوگی ۔ جہاں عام آدمی کی توقعات حکومت کے ایک ماہ میں ٹوٹتی نظر آ رہی ہیں وہیں اب بجٹ کے ذریعہ حکومت کو سماج کے کئی طبقات کو خوش کرنا ہوتاہے ۔ چاہے بجٹ میں انکم ٹیکس کی استثنائی حد میں اضافہ کرتے ہوئے ملازم طبقہ کو خوش کیا جائے یا پھر بڑے محاصل کے معاملہ میں صرف اعداد وشمار کے الٹ پھیر کے ذریعہ کارپوریٹ طبقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ دونوں ہی کام حکومت کیلئے آسان نہیں کہے جاسکتے کیونکہ اس کے بموجب ملک کی معیشت اس قدر ابتر ہے کہ حکومت فیول پر دی جانے والی سبسڈی کو کسی بھی حال میں ختم کرنے پر مجبور ہے ۔ وزیر فینانس مسٹر ارون جیٹلی حالانکہ تجربہ کار سیاستداں ہیں اور ان سے اچھے بجٹ کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن وہ عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں یہ تو بجٹ کی پارلیمنٹ میں پیشکشی اور تفصیلات سے آگہی کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے ۔ پارلیمنٹ بجٹ اجلاس میں کانگریس پارٹی کو قائد اپوزیشن کاعہدہ فراہم کرنے کے تعلق سے بھی ہنگامہ ہوسکتا ہے ۔ حالانکہ کانگریس کے پاس درکار نشستوں کی تعداد نہیں ہے لیکن جمہوری اور پارلیمانی اقدار کے استحکام کیلئے حکومت کوا س معاملہ میں سیاسی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ کانگریس کو یہ عہدہ فراہم کرنا چاہئے ۔ کسی مستحکم اورمضبوط اپوزیشن کا نہ ہونا خود حکومت کیلئے اور ملک کے پارلیمانی اور جمہوری نظام کیلئے بھی بہتر اور اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ اس مسئلہ پر بھی حکومت کو پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ریل کرایوں میں اضافہ اور مہینگائی کے مسئلہ پر کانگریس ایوان کے باہر اور ایوان کے اندر دونوں ہی جگہ احتجاج کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ کمیونسٹ جماعتیں ہوں یا دیگر علاقائی جماعتیں ہوں سبھی حکومت کو گھیرتے ہوئے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کرینگی ۔ جہاں حکومت حالات سے نمٹنا چاہیگی وہیں اپوزیشن اس میں رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہے ۔ پلڑا کس کا بھاری رہتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔