بچھا ہوا ہے ہر ایک گام پر فریب کا جال
تو کیا ہے تم کو ضرورت فریب کھانے کی
پارلیمنٹ میں مہنگائی پر مباحث
مہنگائی اور قیمتوں میںاضافہ فی الحال ہندوستان کا اہم مسئلہ بن گیا ہے ۔ ہر شئے کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے اور عام آدمی کیلئے خورد و نوش کی اشیا کا حصول بھی مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں تاخیر سے اس مسئلہ پر توجہ دینے لگی ہیںاور حکومت تو ایسا لگتا ہے کہ صرف موسم اور دوسرے حالات پر اکتفا کرنے کو ہی ترجیح دے رہی ہے اور اپنے طور پر وہ کسی طرح کے اقدامات کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔کل پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر مباحث ہوئے ۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے ایوان میںجو تقریر کی وہ حکومت کیلئے چبھتے ہوئے سوالات پر مبنی تھی ۔ راہول نے جب یہ طنز کیا کہ انتخابات سے قبل بی جے پی کے قائدین ہر ہر مودی ( ہر گھر میں مودی ) کا نعرہ لگا رہے تھے اور آج ان کے اقتدار میں صورتحال یہ ہے کہ ارہر کی دال 200 روپئے فی کیلو کے قریب تک پہونچ گئی ہے ایسے میں لوگ ہر ہر مودی کی بجائے ار ہر مودی کا نعرہ لگانے پر مجبور ہیں۔ دالوں کی قیمتیںاس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اس پر سوشیل میڈیا میں لطیفے تک بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک پوسٹ میں مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس نے اچھے دن لانے کا وعدہ کیا تھا اور اب واقعی اچھے دن آگئے ہیں کیونکہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چکن ( مرغ کا گوشت ) دالو ں سے سستا ہوگیا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال جس کا شائد خود نریندر مودی یا ان کی کابینہ میںشامل دوسرے ارکان کو بھی اندازہ نہیں تھا ۔ دالو ںکی قیمتیں یقینی طور پر آسمان کو چھونے لگی ہیں اور عام آدمی کیلئے دالیں ہی اس کی غذا کا اصل جز رہی ہیں ایسے میں اس کیلئے دال کھانا بھی مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ ترکاریاں بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں ‘ دودھ اور ادویات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حکومت ہے کہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور وہ صرف بہتر مانسون کی آس میںاپنے کاموں میں مگن ہے ۔ وہ عام آدمی کو مہنگائی کے مسئلہ پر تسلی اور دلاسہ دینے کے موقف میں بھی نظر نہیں آتی ۔ حکومت کو کارپوریٹ طبقہ کے مفادات کی فکر لاحق ہے اور عام آدمی کے مسائل پر توجہ دینے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔ یہ حکومت کی بے حسی اور لا پرواہی کی ایک جیتی جاگتی مثال کہی جاسکتی ہے ۔
اقتدار ملنے کے 100 دن میں قیمتوں میں کمی لانے کا وعدہ کرنے والے نریندر مودی اب اس مسئلہ پر اظہار خیال تک کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس مسئلہ پر عوام کو کسی طرح کی تسلی یا دلاسا دینا چاہتے ہیں ۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں کارپوریٹ طبقہ کی بات کرتے ہیں یا پھر ان کے پاس اسٹارٹ اپ انڈیا ‘ اسٹانڈ اپ انڈیا یا پھر میک ان انڈیا کا نعرہ ہی ہوتا ہے ۔ ان نعر وں سے بھلے ہی کچھ ترقی ہو رہی ہو یا نہیںہو رہی ہو یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی کے دور اقتدار میں ملک کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے اور اچھے دن کی آس میں جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا تھا اب وہ چاہتے ہیں کہ اچھے دن آئیں نہ آئیں جن دنوں میں انہوں نے مودی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا کم ازکم وہی دن واپس آجائیں۔ ملک کی معیشت کے تعلق سے بلند بانگ دعوے حکومت کے ہر گوشے سے ہو رہے ہیں۔ کارپوریٹ طبقہ مسلسل ترقی کرتا جا رہا ہے ۔ اس طبقہ کے ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات معاف کئے جا رہے ہیں اور ہزاروں کروڑ روپئے قرض نا دہندگان کو ملک سے فرار ہونے کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں لیکن اگر توجہ نہیں دی جا رہی ہے تو وہ عام آدمی کو درپیش مسائل ہیں ۔ان مسائل پر حکومت کا کوئی نمائندہ اگر کوئی اظہار خیال کرتا بھی تو وہ کوئی قطعی اقدام پر مبنی نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ صرف موسم پر اکتفا کرنے کی بات کرتا ہے جس طرح سے کل لوک سبھا میں وزیر فینانس ارون جیٹلی نے کیا تھا ۔ انہو ںنے کہا کہ اگر اس سال اچھا مانسون رہا تو قیمتوں میں کمی آسکتی ہے ۔
مانسون اور اچھی بار ش کا بھی یقینی طور پر قیمتوں کے مسئلہ سے تعلق ہے اور اس سے حالات میں بہتری آسکتی ہے لیکن حکومت کو صرف موسم پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھنا چاہئے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر طبقہ کے مفادات کا خیال رکھے اور سب سے مقدم عام آدمی کے مفادات اور اس کی ضروریات ہونی چاہئیں جبکہ مودی حکومت میں ایسا نہیں ہے بلکہ اول اور سب سے پہلے کارپوریٹ طبقہ کو فائدہ پہونچانے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ پٹرول کی قیمتوںمیں بین الاقوامی مارکٹ میں آئی گراوٹ کا بھی عام صارفین کوکوئی فائدہ نہیں پہونچایا گیا ہے بلکہ انہیں مہنگائی کی مار سہنے کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو مودی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جو عوام اقتدار سونپ سکتے ہیں وہ اقتدار کی کرسی کھینچ بھی سکتے ہیں۔