پارلیمانی انتخابات اور عوام

بھڑکائی آگ فرقہ پرستی کی تاکہ ہم
مخلص و خود غرض میں جو ہے فرق بھول جائیں
پارلیمانی انتخابات اور عوام
ملک میں کالے دھن اور رشوت کے خلاف مہم کو عین انتخابات کے وقت ہی سرخیوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ جب پارلیمنٹ ہوتی ہے ۔ ایک منتخب حکومت اور عوام کے منتخب قائدین اپوزیشن کی شکل میں موجود ہوتے ہیں تو رشوت کے بارے میں یا کالے دھن پر زور نہیں دیا جاتا ۔ ان دنوں سرگرم سیاست میں ماضی کے پاک و صاف سیاستدانوں کی اولاد حصہ لے رہی ہے۔ مہاتما گاندھی کے پوترے راج موہن گاندھی ہیں، لال بہادر شاستری کے فرزند ہیں اور آئی کے گجرال کے فرزند بھی سیاست میں حصہ لے چکے ہیں تو یہ تمام سیاستداں باشعور اور بالغ ہیں۔ مگر رشوت کے مسئلہ پر اظہار خیال کرنے والے قائدین خاص کر بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو اس وقت سب سے زیادہ سرخیوں میں رکھا جارہا ہے ۔ مودی نے کالے دھن کا مسئلہ اٹھایا ہے جبکہ ان کی ریاست اور بی جے پی کی اس انتخابی مہم پر ہزاروں کروڑ کے فنڈس کی فراہمی اس کالے دھن سے ہورہی ہے ۔ نریندر مودی نے اپنی ریاست کے عوام کو ترقی کے نام پر کیا دیا ہے اس پر سیاسی بحث چل رہی ہے ۔ اس خشک ریاست گجرات میں شراب مافیا نے 5000 کروڑ روپئے کا کاروبار پھیلا رکھا ہے اور اس میں بی جے پی کے کے ہی لوگ سرگرم بتائے جاتے ہیں۔ ان دنوں بڑے صنعتکاروں ادانی اور امبانی وغیرہ کے نام بھی نریندر مودی سے جوڑے جارہے ہیں۔ بی جے پی کی انتخابی مہم پر 10,000 کروڑ روپئے خرچ کئے جاتے اور اس کے فنڈس کے ذرائع کا پتہ بتانے کا قومی پارٹی نے مطالبہ کیا ہے ۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے نریندر مودی کی پوسٹر مہم کو روپئے کی بے تحاشہ تباہی سے مترادف قرار دیا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کی زیر قیادت کانگریس حکومت نے اب تک اپنی حکمرانی کے برسوں میں اتنی بدعنوانیاں نہیں کی ہوں گی جتنی بی جے پی نے ان لوک سبھا انتخابات کے دوران کی ہیں ۔ فرقہ پرستی کی چادر میں رشوت خوری کی انتہا کرنے والی پارٹی کے بارے میں کانگریس کا ہر لیڈر یہ سوال کر رہا ہے کہ آخر اس کے فنڈس کا ذریعہ کیا ہے ۔ جس ریاست میں دو طبقات کے درمیان حد بندیاں ہوں جہاں اقلیت اور اکثریت کا امتیاز کھلے عام ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے خون پسینے اور ان کی روٹی روزی ہر معاملے پر اکثریت کا غلبہ ہو تو ترقی کی مثال کہاں مل سکتی ہے ۔ رشوت خوری کے خلاف تشہیری مہم چلانے والے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو ان دنوں کچھ سوالات کے جواب دیتے ہیں مگر ان کے طوفانی انتخابی مہم کو میڈیا اور اخبارات نے ایک نئی شکل دے کر تمام خرابیوں کو پوشیدہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس ملک کا میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا بری طرح منقسم ہوچکا ہے ۔ ایک میڈیا وہ ہے جو عوام کو دیانتدارانہ خبریں فراہم کرتا ہے ۔ دوسرا میڈیا وہ ہے جو خالص ’’بکاؤ‘‘ مال بن چکا ہے۔ پیڈ نیوز کی لعنت نے ہی بی جے پی کی لہر کا ڈرامائی منظر تیار کیا ہے ۔ 2014 ء کے یہ انتخابات عوام الناس کیلئے زبردست خسارہ کا سودا ثابت ہوں گے کیونکہ پولیس حکومت بن کر آئے گی وہ اپنے انتخابی مصارف کا حساب کتاب عوام کی جیب سے ہی وصول کرے گی ۔ اگر بی جے پی کو اقتدار مل جائے تو بقول عام آدمی پارٹی لیڈر اروند کجریوال کے بعد ملک صنعتکاروں کے نام گروی کردیا جائے گا ۔ غریب عوام کو مزید غریب بنادیا جائے گا ۔ ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ ہوگا تو غریب عوام حکومت کی دھاندلیوں مالیاتی بے قاعدگیوں اور صنعتکاروں کی لوٹ کھسوٹ کی جانب دھیان ہی نہیں دے سکیں گے کیونکہ ان کو اپنی زندگیوں اور امن و سکون کی فکر لاحق ہوگی ۔ بی جے پی کے اقتدار پر آنے کا مطلب ہندوستان کی باقی ماندہ عوامی زندگیوں کو اجیرن بنا دینا ہوگا۔ نریندر مودی نے کانگریس کی شبیہ خراب کرنے کیلئے انتخابی مہم میں یہ ثبوت بھی چھوڑدیا کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سیاسی مشیر احمد پٹیل ان کے قدیم دوست ہیں ان کی ملاقات اکثر ہوتے رہتی ہے۔ احمد پٹیل نے اس سیاسی خیال کو سمجھتے ہوئے مسترد کردیا ہے ۔ بی جے پی کی مہنگی انتخابی مہم کے سامنے کانگریس کو کئی مسائل کا سامنا ہے ، خاص کر سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو اپنے حلقوں میں پہلی مرتبہ سخت ترین مقابلہ درپیش ہے۔ تاہم کانگریس نے اس سیاسی مقابلہ آرائی میں سخت مقابلہ کے باوجود یہ سبق حاصل نہیں کیا ہے کہ اسے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے ۔ رائے دہندے کے باقی مرحلوں میں کانگریس کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کا بھی موقع نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ کے نتائج ملک کے بڑے صنعتکاروں کیلئے سونے کی کان ثابت ہوں گے تو غریبوں نے جن میں پہلے ہی سے زیادہ مسائل آئیں گے، برقی ، پانی اور روز مرہ کی اشیاء گیس کو غریب عوام کے دست رس سے دور کردیا جائے گا ، پھر کرپٹ سیاستدانوں اور خدمت گار لیڈروں کے درمیان فرق محسوس نہ کرنے کا نتیجہ کتنا بھیانک ہوگا یہ 16 مئی کے بعد کے دنوں میں ہی معلوم ہوگا۔