متنازعہ بیانات سے توجہ ہٹانے کوشاں، برسر اقتدار مرکزی حکومت کو فائدہ پہونچانے کے درپے
حیدرآباد ۔28 اگسٹ (سیاست نیوز) خبروں کی ترسیل اہم ترین ذمہ داری کا کام ہوتا ہے لیکن حالیہ عرصہ میں اس اہم ترین ذمہ داری نبھانے والوں کی دلچسپی خبروں سے زیادہ مباحث اور وہ بھی ایسے مباحث کی سمت مرکوز نظر آرہی ہے جن سے منافرت پھیلتی ہو یا پھر ان مباحث میں حصہ لینے والوں کی غلطیاں پکڑنے کیلئے یا کسی خاص مقصد کیلئے ہی سہی دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہو۔ شہر حیدرآباد ہو یا دہلی یا ممبئی یا اتر پردیش یا ملک کا کوئی علاقہ قومی ٹیلی ویژن چینلوں کی دلچسپی سے تو ملک کے بیشتر عوام واقف ہوچکے ہیں بلکہ ملک کے نامور اور ذمہ دار سمجھے جانے معتبر صحافی بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کا بڑا گوشہ مودی کی خوشنودی حاصل کرنے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو مستحکم کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔ ملک کے اس میڈیا کے گوشہ کو اس کا کیا فائدہ ہے اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے لیکن اس فائدے کو حاصل کرنے کے لئے کس حد تک جانا پڑتا ہے اس کی انہیں پرواہ نہیں رہی۔ جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں پیش آئے واقعات کے بعد خود میڈیا اداروں کے ذمہ داروں نے یہ کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت اور سیکولرازم خطرے میں ہے اور ٹیلی ویژن چینلس کے اسٹوڈیو میں عوامی مسائل پر مباحث کے بجائے ایک مخصوص گروہ کے استحکام کیلئے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کا راست فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہنچتا ہے۔ ملک میں 2014عام انتخابات کے بعد پیدا شدہ صورتحال اورریاستی انتخابات سے قبل ٹیلی ویژن چینل پر منعقد کئے جانے والے مباحث پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ٹیلی ویژن چینل گھروں تک زمینی حقائق پہنچانے کے بجائے ذہن سازی میں مصروف ہیں اور اس ذہن سازی کیلئے چند ایسے قائدین کا سہارا لیا جا رہا ہے جن کے اپنے حلقوں کے مسائل سے واقف نہیں ہیں لیکن ملک بھر کے مسائل پر قومی چینلس پر اپنا موقف کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ سارے مسلمانوں کا موقف ہو جس کا اثر ملک کے اکثریتی طبقہ پر یہ ہوتا ہے کہ وہ ان قائدین کے موقف کو جمیع مسلمانوں کا موقف تصور کرتے ہوئے ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور وہ مذہبی بنیادوں پر متحد ہوتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کرنے لگتے ہیں اور نتائج آسام‘ مہاراشٹرا کی صورت میں ہندوستانیوں کے سامنے ہیں۔ 2017میں ہونے والے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں اب تک سب کی نظریں اتر پردیش پر مرکوز تھی لیکن پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے استحکام اور گجرات میں چیف منسٹر کی تبدیلی نے شہریوں کو ان ریاستوں کی جانب توجہ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ ریاست اتر پردیش میں کامیابی کے حصول کیلئے بی جے پی کی جانب سے نہ صرف کھلے دوستوں بلکہ درپردہ حمایتیوں کی مدد لینے کا آغاز کردیا گیا ہے اور ایک مرتبہ پھر قومی ٹیلی ویژن چینلوں پر درپردہ حامیوں کو پسندیدہ شخصیت اور متنازعہ بیانات کے حوالے سے پیش کیا جانے لگا ہے تاکہ عوام کو متنازعہ بیانات کی یاد دہانی کرواتے ہوئے انہیں مذہبی خطوط پر منقسم کیا جا سکے۔ ٹیلی ویژن چینلس پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مدد کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جو طریقۂ کار اختیار کیا جا رہا ہے اس میں اگر مسلم قائدین نادانستہ طور پر سازش کا شکار ہو رہے ہیں تو انہیں چوکنا ہو جانا چاہئے اور یہ سونچنا چاہئے کہ انہیں عین انتخابات سے قبل کیوں ٹی وی اسکرین کی زینت بنایا جانے لگتا ہے اور اگر وہ سب کچھ جانتے ہوئے ملک کے عوام کو مذہبی خطوط پر منقسم کرنے میں اعانت کر رہے ہیں تو عوام کو یہ چاہئے کہ وہ اپنے قائدین سے استفسار کریں کہ وہ کن مجبوریوں کے تحت ملت کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں؟اتر پردیش میں بہار کے نتائج کا اعادہ ہونے کی پیش قیاسیوں کے دوران جوصورتحال پنجاب اور گجرات میں پیدا ہوئی ہے وہ ملک کے برسر اقتدار طبقہ کیلئے سازگار نہیں ہے اسی لئے اس طبقہ کو اب پاؤر لوم کے مسائل یاد آنے لگے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو 2017کے اوائل تک گرما گرم رکھنے اور بالواسطہ اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دیتے ہوئے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ریاست اتر پردیش جہاں بابری مسجد شہید کی گئی اقتدار کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پنجاب اور گجرات سے زیادہ اتر پردیش میں بڑھتی دلچسپی اور اتر پردیش میں مسلم و سیکولر ووٹ کی تقسیم کی سازش کا مقصد ہر ذی شعور کا ماتھا ٹھنکانے کیلئے کافی ہے۔