ٹی وی سیرئیلوں اور سوشیل میڈیا کے نوجوان نسل پر مضر اثرات

تشددپر آمادگی ، میں مجرم بننا چاہتی ہوں ، ماں کے سوال پر بیٹی کا جواب
نمائندہ خصوصی
حیدرآباد ۔ 2 ۔ اکٹوبر : ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں سوادیشی تحریک نے ایک نیا موڑ لایا تھا جس سے انگریز سامراج کافی پریشان ہوگیا تھا ۔ 1905 میں شروع کردہ اس تحریک نے 1911 میں اپنے اختتام تک انگریز حکمرانوں کو کافی پریشان کر رکھا تھا ۔ اس وقت ہندوستانی بیرونی اشیاء کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ملکی مصنوعات کے استعمال پر زور دے رہے تھے ۔ بیرونی مصنوعات کے ڈھیر اہم بازاروں چوکوں ، چوراہوں پر جمع کرتے ہوئے انہیں آگ لگادی جاتی تھی ۔ سوادیشی تحریک کو آج بھی مظلوم اپنا موثر ہتھیار تصور کرتے ہیں ۔ تاہم حالات اس قدر بدل گئے ہیں کہ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ فحش و بے ہودہ مغربی تہذیب کے دلدل میں اس قدر پھنس گیا ہے کہ اس نے اپنی شرم و حیا ، اخلاقی و معاشرتی اقدار کو اس طرح اہم بازاروں ، چوراہوں اور میدانوں میں جمع کر کے نذر آتش کردیا ہے جس طرح سوادیشی تحریک کے دوران غیر ملکی مصنوعات کو نذر آتش کیا گیا تھا ۔ ہندوستانی معاشرہ میں بے شرمی و بے حیائی پر مبنی تہذیب کے فروغ میں میڈیا انتہائی منفی کردار ادا کررہا ہے ۔ خاص طور پر نوجوان نسل بعض چیانلوں ، سوشیل میڈیا اور انگریزی اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کے نام پر دکھائے جانے والے ٹی وی سیرئیلوں سے شدید متاثر ہو کر جنسی بے راہ روی ، جرائم اور منشیات جیسی لعنتوں میں گرفتار ہورہی ہے ۔ نوجوان لڑکیاں ان ٹی وی سیرئیلوں ، انٹرنیٹ اور موبائیل فونس کے باعث اپنے والدین اور خاندان کی بے عزتی کا باعث بن رہی ہیں ۔ حال ہی میں لائیو منٹ میں نتاشا بدھوار نے ذرا سوچئے ! آخر عورت کیا کہتی ہے کہ زیر عنوان ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ آج کل انگریزی اخبار کی بجائے بچیوں کے ہاتھوں میں باربی گڑیا ہونی چاہئے ۔ اس لیے کہ ان اخبارات میں جو گندی برہنہ و نیم برہنہ تصاویر اور جنس زدہ مضامین شائع ہوتے ہیں ۔ وقت سے پہلے ہی بچوں کو بالغ بنا دیتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے خود اپنے گھر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ ہفتہ ان کی منجھلی لڑکی ہندی کا ہوم ورک کرتے ہوئے غصہ کے عالم میں کافی برہم تھی ۔ اسے ’ آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہو ‘ کے عنوان پر ہندی میں ایک مضمون لکھنا تھا ۔ یہ ایسا عنوان تھا جس پر وہ بڑی آسانی کے ساتھ مضمون لکھ سکتی تھی تاہم اس کے چہرہ پر غصہ کے آثار نمایاں تھے ۔ انہوں نے اپنی 9 سالہ بیٹی سے کہا ’ بیٹی یہ تو بہت آسان کام ہے ‘ آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتی ہو وہی لکھ دیجئے ‘ ۔ بیٹی نے جواب میں کہا ’ مجھے نہیں معلوم ماما ‘ ماں نے اس کو تسلی دینے کی خاطر کہا ’ ٹھیک ہے ! آپ یہ لکھ سکتی ہو کہ میں کئی چیزوں میں دلچسپی رکھتی ہوں اس لیے بڑے ہو کر کیا بنوں گی اس بارے میں اپنا ذہن نہیں بنایا ہے ۔ ماں کی یہ بات سن کر بیٹی نے پر زور انداز میں فوراً کہا ’ میں ایک مجرم بننا چاہتی ہوں ‘ ۔ نتاشا بدھوار نے معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بیٹی سے انتہائی شفقت سے کہا ’ اچھا تم رابن ہوڈ کی طرح بننا چاہتی ہو ‘ ۔ بیٹی نے جو جواب دیا اسے سن کر ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ اس لڑکی نے کہا ’ میں ایک حقیقی مجرم بننا چاہتی ہوں ، میں تو لوگوں کو قتل کروں گی ‘ ۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اگر علیزا لڑکی کی بجائے ان کا 9 سالہ بیٹا ہوتا تو مجھے بہت پریشانی ہوتی ۔ علیزا نے اپنی ماں سے فلمی انداز میں یہ بھی کہا کہ تمام اچھے لوگ خراب اور خراب لوگ اچھے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے اس واقعہ کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کل کی نسل کو ایسے ٹی وی چیانلوں اور اخبارات اور سوشیل میڈیا سے دور رکھنے کی ضرورت ہے جو پر تشدد واقعات ، عصمت ریزی کے سانحات ، جنسی بے راہ روی کی کہانیوں کو من و عن بلکہ اس میں مرچ مسالہ لگا کر پیش کرتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں وہ فلمی اداکارہ دیپکاپڈوکون کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ عورت اس قدر آزاد ہوگئی ہے کہ وہ برسر عام اپنے جسمانی اعضاء پر تبصرہ کرنے لگی ہے ۔ اس کے لیے بھی وہ انگریزی میڈیا کے ایک گوشہ کو ذمہ دار قرار دیتی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستانی معاشرہ میں کسی لڑکی یا خاتون کی زبان سے اس طرح کے الفاظ کی ادائیگی کو معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن دیپکاپڈوکون نے اپنے جسم کے مخصوص اعضاء کو بحث کا موضوع بنادیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اس کے لیے سستی شہرت کا آسان فارمولہ ہو ۔ ویسے بھی فلموں سے کہیں زیادہ ٹی وی سیرئیلوں کے ذریعہ مشرقی تہذیب کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا جارہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان ٹی وی سیرئیلوں کے ذریعہ اعلیٰ ذات کے صرف دولت مند ہندوؤں کی تہذیب پیش کی جارہی ہے ۔ جو اپنے آپ میں معاشرہ کی تباہی کی ایک خفیہ سازش لگتی ہے ۔۔ ( سلسلہ جاری ہے )