محمد ریاض احمد
حیدرآباد ۔ 7 ۔ اکٹوبر : جب کسی چیز کا استعمال حد سے زیادہ ہوجائے تو وہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے ۔ ہم نے اپنی پچھلی رپورٹس میں سوشیل میڈیا ، فیس بک ، انٹرنیٹ ، موبائیل فونس کے بیجا استعمال اور مختلف ٹی وی چیانلوں پر پیش کئے جانے والے ٹی وی سیرئیلوں کے بارے میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کس طرح ٹی وی چیانلوں پر فحش قسم کے سیرئیلس پیش کیے جارہے ہیں اور ایک مخصوص مذہب و ذہنیت کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ ان سیرئیلوں میں جو زیادہ تر مالدار گھرانوں کے بارے میں ہوتے ہیں ۔ نند ، بھاوج ، جیٹھانی ، دیورانی ، ساس ، بہوؤں اور بھائیوں کے درمیان رچی جانے والی سازشوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کی جانے والی کوششوں اور شادی سے پہلے یا شادی کے بعد ناجائز رشتوں کو اس انداز میں اجاگر کیا جارہا ہے کہ نئی نسل پر اس کے اثرات لازم مرتب ہوں گے ۔ اس سلسلہ میں ہم نے ماہرین تعلیم ، علماء ، طلباء اور عام آدمی سے بات کی ۔ شمشیر علی میموریل سوسائٹی فار ایجوکیشن اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کے صدر نشین سید خرم نذیر نے بتایا کہ مختلف ٹی وی چیانلوں پر جو سیرئیلس دکھائے جاتے ہیں اس کے منفی اثرات نوجوان نسل پر ضرور پڑتے ہیں وہ جب بھی کسی بات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں تو ان سیرئیلوں میں دکھائے جانے والے مناظر کا ذکر ضرور کرتے ہیں ۔
اس لیے کہ بار بار وہ مناظر ان کے ذہن میں آتے ہیں اس سے بچوں کی تعلیم پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ خاص طور پر طالبات ان سیرئیلوں کی اداکاراؤں کے لباس اور میک اپ پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس بارے میں تبادلہ خیال بھی کرتی ہیں ۔ جناب خرم نذیر کی یہ بات بالکل درست ہے ۔ اس لیے کہ ایک اسکول کے دورہ کے موقع پر ہم نے خود دس بارہ سال کی طالبات کو ٹی وی سیرئیلوں میں اداکاراؤں کے میک اپ اور لباس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا ۔ دوسری طرف چونکہ ہمارا تقریبا دینی مواد ، عربی اور اردو میں ہے ۔ ایسے میں اردو سے عدم واقفیت کے باعث بچے دینی علوم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ دینی علوم ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں راہ دکھاتے ہیں صاف صفائی ، طہارت و پاکیزگی ، اخلاق و کردار ، خاندانی اقدار ، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ، غرض ہر معاملہ میں دینی علوم کا جاننا ضروری ہے ۔ اس لیے معاشرہ میں اردو کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ اس ضمن میں مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر نائب مفتی جامعہ نظامیہ سے بات کی ۔ مفتی صاحب نے کہا کہ جہاں تک موبائیل فونس کا سوال ہے یہ ایک ضرورت کی چیز ہے لیکن موبائیل کا استعمال صرف ضرورت ہی تک محدود کرنا چاہئے ۔
طلباء وطالبات کے لیے موبائیل فونس پر انٹرنیٹ ، واٹس اپ وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ۔ مفتی صاحب کے خیال میں ماں باپ کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کے موبائیل فونس کا جائزہ لیتے رہیں کیوں کہ آج کل موبائیل فونس کو بے راہ روی پھیلانے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے ۔ ہاں موبائیل فونس بچوں کو دینے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس کا غلط اور بیجا استعمال بری بات ہے ۔ فی الوقت واٹس اپ وغیرہ کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو واٹس اپ اور فون میں موجود گیمس وقت ضائع کرنے کا باعث بن رہے ہیں مناسب یہی ہے کہ موبائیل فونس کا محدود استعمال کیا جائے ۔ مفتی قاسم صدیقی تسخیر نے مزید کہا کہ اردو اور فارسی مذہبی رنگ کی زبانیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان زبانوں میں ہمارا مذہبی مواد ہے خاص طور پر اردو میں دینی علم کے ذخائر موجود ہیں ۔ انگریزی میڈیم سے پڑھنے والے طلباء وطالبات کے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھنا لکھنا ضرور سکھائیں ۔ اس زبان میں اخلاقیات کا درس ملتا ہے ۔ اخلاق و کردار اور ادب کے زیور سے بچے اپنی شخصیت کو سجا اور سنوار سکتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے خیال میں بچوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت سے لیس موبائیل فونس نہیں دئیے جانے چاہئے ۔
انٹرنیٹ کا استعمال ماں باپ اپنی نگرانی میں کرائیں تو موزوں رہے گا ۔ بے شک مفتی صاحب نے صحیح کہا ہے کہ موبائیل فون ضرورت کے لحاظ سے استعمال کیا جانا چاہئے اور انٹرنیٹ کا استعمال والدین اپنی نگرانی میں کرائیں توٹھیک رہے گا ۔ مفتی صاحب کے ان خیالات کی تائید محترمہ سیدہ عاصمہ ہاشمی بھی کرتی ہیں ۔ قارئین ! یہ خاتون سید مصطفی ہاشمی اور سیدمرتضی ہاشمی جیسے حیدرآباد کے دو قابل فرزندان کی ماں ہیں ۔ ایم بی بی ایس سال آخر اور ایم بی بی ایس سال دوم میں زیر تعلیم سید مصطفی ہاشمی اور سید مرتضی ہاشمی ’ کون بنے گا کروڑ پتی ‘ میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور ہندوستان کے اہم ترین کوئز مقابلوں کے فاتح ہیں ۔ سیدہ عاصمہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ گھر میں انٹرنیٹ ، موبائیل فونس ، ٹی وی اور کمپیوٹر رکھنا چاہئے لیکن ان کے حسب ضرورت استعمال کو یقینی بنایا جائے تو ہی بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں ورنہ بیجا استعمال تباہ کن ثبات ہوتا ہے ۔
انٹرنیٹ کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ بچے مختلف پراجکٹس کی تیاری میں اس سے مدد لے سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کے بچوں نے گذشتہ سال فینانس کوئز جیتا اور اس مرتبہ بھی حصہ لے رہے ہیں ۔ ان مڈیکور نے انٹرنیٹ پر مطالعہ کے ذریعہ مالیاتی امور کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ جہاں تک ٹی وی کا سوال ہے وہ کہتی ہیں ’ ہم اپنے گھر میں ٹی وی ضرور رکھتے ہیں لیکن سیرئیلس جیسی بیکار چیزیں اور پروگرامس نہیں دیکھتے ۔ ہاں خبریں دیکھتے ہیں ۔ اسلامی مباحث اور مختلف امور پر ہونے والے بحث و مباحثہ کا مشاہدہ کرتے ہیں کیوں کہ اس سے بچوں اور بڑوں دنوں کے علم میں اصافہ ہوتاہے ‘ ۔ سیدہ عاصمہ ہاشمی نے جن کی بیٹی اثناء ہاشمی کو بھی ایم بی بی ایس میں داخلہ ملا ہے ۔ بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے اردو سیکھنے کا خصوصی بندوبست کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ اردو اچھی طرح لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔ ان کے بڑے فرزند جو عثمانیہ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس سال آخر کے طالب علم ہیں 14 پارے حفظ کرچکے ہیں ۔ بہر حال ہر چیز کا استعمال احتیاط سے کیا جائے اور ہم خود کو مادری زبان سے قریب رکھیں تو اس کے ثمرات سے مستفید ضرور ہوں گے ۔۔ ( ختم شد ) ۔
mriyaz2002@yahoo.com