جن کے کرم سے ہوگئی ہے بار زندگی
کچھ زندگی میں ایسے بھی اہلِ کرم ملے
ٹی آر پی کی سیاست
وزیر اعظم نریندر مودی پر سوٹ بوٹ کی سرکار کا ریمارک کرنے کے بعد اب کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے ان پر ٹی آر پی کی سرکار چلانے کا طنز کیا ہے ۔ راہول گاندھی نے کانگریس پارلیمانی پارٹی سے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیر اعظم اپنی شخصیت کے حصار میں قید ہیں اور صرف ٹی آر پی کی سیاست چلانے میں مصروف ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے ۔ ان کی نا اہلی کی وجہ سے ملک کے غریب عوام کی مشکلات اور پریشانیوں میںا ضافہ ہو رہا ہے ۔ کانگریس پارٹی عوام کو پیش آنے والے مسائل کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ راہول گاندھی کا ریمارک حقیقت سے قریب نظر آتا ہے ۔ واقعی وزیر اعظم ٹی آر پی کی سیاست چلانے میں مصروف ہیں اور انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ملک کے عوام کو ان کے اچانک اور بے دھڑک کئے جانے والے فیصلوں سے کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، غریب اور متوسط طبقہ کی زندگیوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی ان کے اس طرح کے فیصلوں سے کس طرح سے متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ ڈھائی سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد واقعتاً یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ وزیر اعظم محض اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کے شوق کا شکار ہیں۔ وہ اپنے جملوں اور اپنی حرکتوں کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے ۔ وہ نپے تلے انداز میں ڈائیلاگس مارنے سے گریز نہیں کرتے ۔ نریندر مودی دنیا کی ایک بڑی جمہوریت کے سربراہ ہیں اور انہیں یہ بات ذیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے انداز میں کام کرنے کو ترجیح دیں اور عوام کو پیش آنے والی مشکلات اور پریشانیوں سے صرف نظر کرلیں۔ جب ملک میں 2014 میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے تھے اس کی مہم کے دوران بھی نریندر مودی نے ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا اور عوام سے فلمی انداز میں مخاطب ہونے کو ترجیح دیا کرتے تھے ۔ انہوں نے جو وعدے کئے تھے آج ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائیگی کہ اس وقت بھی انہوں نے محض عوام کو متوجہ کرنے کے اعلانات کئے تھے اور اقتدار حاصل کرنے کے ڈھائی سال بعد وہ ان وعدوں کو فراموش کرچکے ہیں۔
پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران وزیر اعظم نے بیرونی ممالک میں رکھا گیا کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ عوام کے کھاتوں میں 10 تا 15 لاکھ روپئے جمع کروائے جائیں گے ۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ 100 دن میں قیمتوں کو کم کردیا جائیگا ۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ کے بعد صورتحال اس سے مختلف ہوگئی ہے ۔ حکومت نے بیرونی ممالک کو ڈالرس روانہ کرنے کی حد میں اضافہ کردیا اور باہر کا پیسہ ملک کو نہیں لایا گیا ۔ عوام کے کھاتوں میں باہر کا پیسہ لا کر جمع کروانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن خود عوام کے گھروں اور کھاتوں میں رکھا گیا پیسہ اب خود حکومت وصول کر رہی ہے ۔ 100 دن میں مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا بلکہ دالوں کی قیمتوں میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ ضرورت زندگی کی ہر شئے مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کے انداز اور طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ الٹا اپنی دنیا میں مگن عوام کی پریشانیوں سے بے فکر ہیں۔ جس طرح آج ان پر ٹی آر پی سیاست کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے اسی طرح یہ واضح ہوگیا ہے کہ انتخابات سے قبل بھی انہوں نے ٹی آر پی سیاست ہی اختیار کی تھی اور عوام سے ایسے وعدے کردئے تھے جو خود ان سے کبھی بھی پورے نہیں جاسکتے ۔ محض عوام کو رجھانے کیلئے اس طرح کے وعدے کئے گئے تھے اور جب اس تعلق سے سیاسی جماعتوں نے اور عوام نے بتدریج سوال کرنا شروع کیا تو بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے اسے محض انتخابی جملہ بازی قرار دیدیا ۔
امیت شاہ بی جے پی کے صدر ہیں اور سیاسی جماعت کے صدر کی حیثیت سے وہ تو ایسے وعدے کو انتخابی جملہ بازی قرا ردیتے ہوئے بری الذمہ ہوسکتے ہیں لیکن وزیر اعظم کو یہ ذیب نہیں دیتا کہ وہ ایک جلیل القدر دستوری عہدہ پر فائز ہوتے ہوئے عوام سے کئے گئے وعدوں سے صرفِ نظر کریں۔ انہیں ٹی آر پی کی سیاست سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں عملی سیاست کو اپنی ترجیح بنانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں چاہئے کہ وہ جو وعدے عوام سے کرچکے ہیں ان کو پورا کرنے کیلئے کوشش کریں۔ انہیں عوام کو درپیش مشکلات کو کم کر نے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں شخصیت کو فروغ دینے کی بجائے ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج نہ انتخابات کا موسم ہے اور نہ نریندر مودی صرف ایک سیاسی قائد ہیں۔ وہ ایک ملک کے وزیر اعظم ہیں اور اس کی ذمہ داریوں اور ترجیحات کا انہیں فوری احساس کرنے کی ضرورت ہے ۔