تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد بھی ماضی کے مہیب سائے منڈلاتے رہیں تو نئی حکومت کو اپنی کارکردگی کے مظاہرہ میں مشکل درپیش ہوگی۔ ٹی آر ایس حکومت نے نئی ریاست میں نیا اقتدار حاصل کرکے اپنے 100 دن مکمل کرلئے ہیں۔ اس کے ناقدین اور اپوزیشن نے حکومت کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا ہے تو حکومت نے اپنے حصہ کے طور پر اب تک متوازن رول ادا کیا ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کی جانچ کے لئے 100 دن کم ہی ہوتے ہیں۔ خاص کر نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد اس کی باگ ڈور سنبھالنے والی قیادت کے سامنے کئی چینلجس بھرے کام ہوتے ہیں۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے اپنی مقدور بھر کوششوں سے اب تک عوام الناس کو ایک اچھی حکمرانی کے وعدہ کو پورا کرنے کا مظاہرہ کیا ہے، جہاں تک راتوں رات ترقی یا الہ الدین کا چراغ جیسا تاثر دینے کی کوشش کی امید فضول ہے۔ ہندوستان کی نوخیز ریاست کی حکومت اب 100 دن پرانی ہوچکی ہے تو اس کے لیڈر کے چندر شیکھر راؤ کو آگے بہت اہم کام انجام دینے ہیں۔ تلنگانہ عوام کے لئے نئی ریاست حاصل کرنے والے کے سی آر اب اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی جانب گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ ’’سنہرے تلنگانہ‘‘ کا خواب ان کی دیرینہ آرزو کا حصہ ہے تو اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں میں کوئی جھول آنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ انہوں نے اب تک کئی اہم اعلانات کئے ہیں۔ ان اعلانات میں سے اکثر پالیسیوں کو روبہ عمل لانا ان کی حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔
توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے بجٹ سیشن (ستمبر۔اکتوبر) کے دوران حکومت کی پالیسیوں اور عوامی اسکیمات کے مطابق بجٹ تیار کیا جائے گا۔ ریاست میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے بھی وہ کوشاں ہیں۔ حیدرآباد کو آئی ٹی کا سب سے بڑا مرکز بنانے کی کوشش میں ان کے فرزند وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹی راما راؤ بھی ہم تن کوشاں ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے میں شفافیت، آسانی اور رشوت سے پاک دفتری کام ہو تو عوام الناس کو آسانی سے دکھائی دے گا کہ واقعی تلنگانہ کے لئے سنہرا دور اب زیادہ دُور نہیں ہے۔ صنعت کاروں کو لائسنس کی اجرائی کے لئے سنگل ونڈو پالیسی قابل ستائش ہے، خاص کر چیف منسٹر کے کیمپ آفس میں ہی تمام کاموں پر نظر رکھنے والا سیل قائم ہو تو کہیں بھی خامی کی بہت کم گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ تلنگانہ ریاست میں انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کو اہم رول ادا کرنا ہے۔ صنعتی راہ داری کے قیام سے ہی سرمایہ کاری میں وسعت پیدا ہوگی۔ حکومت نے صنعتوں کے ساتھ ساتھ ٹاؤن شپس کی تعمیر کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ حیدرآباد کے قریب 7,000 ایکڑ پر فارما سٹی بنایا جارہا ہے تو اس کی تعمیر و ترقی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قومی شاہراہ اور ریلویز تک آسانی سے رسائی حاصل ہو تو ترقی کی رفتار بھی زیادہ ہوگی۔ نئی ریاست کو برقی پلانٹس کی سخت ضرورت ہے۔ فارما سٹی کے قریب 500 میگا واٹ کے برقی پلانٹ کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے۔ صنعتوں اور رہائشی علاقوں کو برقی اور سربراہی آب کے علاوہ دیگر انفراسٹرکچر سہولتوں کی فراہمی ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کو اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق کسانوں کے قرضوں کی معافی یا قرض راحت اقدامات کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
چیف منسٹر کے سی آر نے اب تک تلنگانہ کی تاریخی روایات کو لے کر چلنے کی کوشش کے ساتھ سابق حکومت ، حضور نظام کی یادوں کو بھی برقرار رکھنے کی اچھی کوشش کررہے ہیں۔ تلنگانہ کے اہم سپوتوں کی کو خراج پیش کرنے میں بھی انہوں نے کسی تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ تلنگانہ عوام کے شاعر کالوجی نارائنا راؤ کی صدی تقریب ہو یا تلنگانہ کے مشہور و ممتاز انجینئر نواب جنگ کی یوم پیدائش کا سرکاری طور پر اہتمام کرنے کی کوشش خاص کر ان کی یوم پیدائش کو ریاست تلنگانہ میں ’’یوم انجینئرس‘‘ منایا جانے کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ پروفیسر جئے شنکر کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ حکومت نے تلنگانہ نظریہ کے روح رواں کے نام سے آچاریہ این جی رنگا اگریکلچرل یونیورسٹی کو معنون کیا ہے۔ کے سی آر کی مشکل یہ ہے کہ وہ مرکز سے حسب توقع تعاون حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اگرچیکہ انہوں نے حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے نئی ریاست کے تقاضوں اور ضرورتوں کو پیش کیا ہے مگر مرکز سے کوئی خاص اُمید نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود چیف منسٹر میں اپنے بَل پر ریاست کی ترقی کی سمت قدم اٹھانے کا حوصلہ دکھا جارہا ہے تو ان کا ہر ایک کو ساتھ دینا چاہئے۔ انہوں نے ایک دن میں جامع گھریلو سروے کرواکر ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا، اب اس سروے کے مطابق تلنگانہ کے 10 ملین خاندانوں کو راحت بخش اسکیمات سے نوازنے کا وقت آگیا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کی رفتار کو یوں برقرار رکھ کر اپنی منزل مقصود کو پالیں گے۔ انہیں چابی سے چلنے والی حکومت نہیں ملی، اور نہ ہی ان کی حکومت کو کسی چابی بھرنے والے کا انتظار ہے تو پھر تلنگانہ کے عوام کو ان کے حصہ کی کوششوں کا ثمر ملنا چاہئے ۔