خراب قرضوں سے پریشان بینکنگ سسٹم کو بچانے کی کوشش، ارون جیٹلی کے اعلان کا تجزیہ
ممبئی ۔ 31 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی نے گذشتہ دنوں ایک غیرمعمولی اعلان کیا۔ اسے دو حصوں میں دیکھا جاسکتا ہے : اول، 7 ٹریلین روپئے (یعنی 12 صفر والا ہندسہ) خرچ کرتے ہوئے تقریباً 84000 کیلو میٹر طویل سڑکوں کی تعمیر کی تجویز جو پراجکٹ بھرت مالا کا حصہ ہے۔ یہ یوں سمجھئے کہ ہماری مادروطن کے اطراف نیکلس روڈ کی تعمیر ہے اور جس میں بین ریاستی سڑکیں، معاشی راہداریوں، ساحلی اور سرحدی سڑکیں اور ایکسپریس ویز شامل رہیں گے۔ یہ پراجکٹ اگلے پانچ سال میں پورا کیا جائے گا اور اس کیلئے لگ بھگ 150 ملین دنوں کا کام درکار ہوگا۔ اس سے روڈ کنٹراکٹرس اور کنسٹرکشن مٹیریل سپلائرس کے بزنس کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس پراجکٹ میں بڑا چیلنج سڑکوں کیلئے حصول اراضی، ماحولیاتی منظوریاں حاصل کرنا ہے اور تقریباً 40 کیلو میٹر فی یوم کی زبردست رفتار پر تعمیر کو یقینی بنانا رہے گا۔ یہ سب قابل عمل ہے بشرطیکہ ہر کوئی یکساں سمت میں کام کرے۔ اعلان کا دوسرا بڑا حصہ بینکوں میں سرمایہ کی مشغولیت ہے۔ بینکنگ سسٹم کی زبوں حالی موجودہ طور پر ملک کو درپیش سب سے بڑے معاشی مسائل میں سے ہے۔ گذشتہ تین سال میں صورتحال ابتر ہوئی ہے لیکن پریشانی تو کئی سال قبل شروع ہوئی تھی۔ جب قرض خراب شکل اختیار کرلیتے ہیں یا واپسی نہیں ہوتی تو بینکرس مہلت دیتے جاتے ہیں۔ اس تعطل کا صاف مطلب یہی ہیکہ آگے چل کر پریشانی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر واجب الادا قرض ادا نہ کیا جائے تو قرض دہندہ زیادہ محنت سے کام لیتے ہوئے واپس ادائیگی کو بہرحال یقینی بنانے کے جتن کرنے ہوں گے
بصورت دیگر دھیرے دھیرے پورے سسٹم میں خرابی پیدا ہوتی جائے گی لیکن اگر قرض دہندہ کوئی بااثر شخصیت ہو تو تب کیا ہوگا؟ کوئی سیاسی اثرورسوخ کا حامل ہو تو کیا ہوگا؟ ایسی صورتوں میں بینکوں اور دیگر اداروں نے عملاً خاموشی اختیار کرلی ہے لیکن اس سے معاشی صورتحال کا مسئلہ بگڑتا ہی جائے گا۔ اس طرح کے خراب قرضوں کو غیرکارکرد اثاثہ جات (این پی ایز) کہتے ہیں اور این پی اے کا مسئلہ گذشتہ 6 سال میں بتدریج ابتر ہوتا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہیکہ تقریباً 10 فیصدی قرضے اب این پی ایز کے زمرہ میں شمار ہوتے ہیں اور مستقبل میں مزید خراب صورتحال پیش آسکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہیکہ بینکس کوئی نئے قرض جاری نہیں کرسکتے اور صنعتی شعبہ کیلئے قرض کی شرح 60 سال کی اقل ترین سطح پر آ گئی ہے حتیٰ کہ رقم ۔ سربراہی میں بڑھوتری کی شرح کئی دہوں کی نچلی سطح پر آ پہنچی ہے۔ یہ عجیب صورتحال اس لئے کہی جاسکتی ہے کیونکہ بینکس فی الواقع نقدی جاری کرتے جارہے ہیں جو نوٹ بندی کے بعد جمع رقم کے سبب ممکن ہورہا ہے۔ این پی ایز گلے میں پتھر جیسا ہے جو یا تو نکالنا پڑے گا یا اس کا بوجھ کم کرنا پڑے گا ورنہ بینکوں کی کارکردگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔ اگر این پی ایز کو واپسی کی توقع کو صفر مان کر ختم کردیا جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کی پابجائی تازہ سرمایہ کاری کے ذریعہ کرنا پڑے گا۔ یہ سرمایہ بینک کے شیئر ہولڈرس (مالکین) نہ کے ڈپازیٹرس کی طرف سے آتا ہے۔ ڈپازیٹروں کی رقم محفوظ ہے چونکہ این پی اے کا مسئلہ عوامی شعبہ کے بینکوں میں زیادہ ہے جو نصف طور پر حکومت ہند کی ملکیت ہوتے ہیں،
اس لئے سرمایہ دہلی سے ہی آنا پڑے گا۔ یہی کچھ وزیرفینانس نے اعلان کیا ہے۔ جملہ پیاکیج 2.11 ٹریلین روپئے کا ہے جو عوامی شعبہ کی بینکوں پر موجود بوجھ کو کم کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔ کیا یہ بینکنگ سسٹم کو بھنور سے نکالنے کا راحتی اقدام نہیں؟ کیا یہ ایسا نہیں کہ قرض دینے والوں کا قرض معاف کردیا جارہا ہے؟ فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ این پی اے کی یکسوئی کا عمل اس طریقہ کار کے ذریعہ آگے بڑھے گا۔ مثال کے طور پر قرض دہندگان کو اپنی کمپنی کے کنٹرول سے محروم ہونا پڑے گا۔ کئی کمپنیوں کو ہراجوں کے ذریعہ نئے مالکین کو فروخت کردیا جائے گا۔ بہرحال فنڈس کی فراہمی ضروری ہے۔ یہ کام تاخیر سے شروع ہوا ہے لیکن اس کا طریقہ کار کافی ہوشیاری والا ہے کیونکہ حکومت کوئی نئے ٹیکس متعارف نہیں کررہی ہے اور نہ ہی اپنے مالی خسارہ کو بڑھاتے ہوئے سرمایہ کی سطح مستحکم کررہی ہے۔ اس نے بس بینکوں سے کہا ہیکہ Recap Bonds خرید لیں اور اس طرح بینک کے پاس تازہ سرمایہ دستیاب ہوجائے گا۔ نوٹ بندی کی وجہ سے اضافی نقدی جو ڈپازیٹرس کی طرف سے بینکنگ سسٹم میں آئی ہے، وہ بینک کا سرمایہ ہوگیا ہے۔ پھر اس سرمایہ کو حقیقتاً کس نے فراہم کیا؟ ٹیکس دہندگان، نہ کہ ڈپازیٹرس۔ لیکن چونکہ اس کے نتیجہ میں قرض کی شرح میں اضافہ ہوگا اور ممکنہ طور پر صنعتی شعبہ کے احیاء اور نوکریوں کی پیداوار بھی بڑھے گی اس لئے اسے گوارا کیا جاسکتا ہے۔ دیر آئے درست آئے۔