ٹینک بنڈ پر 34 کے منجملہ صرف 3 مسلم شخصیات کے مجسمے

مجسموں کی تفصیلات انگریزی، ہندی اور تلگو زبان میں، اردو یکسر نظرانداز

حیدرآباد ۔ 6 ستمبر ۔ شہریان حیدرآباد کا زبان اردو کے ساتھ جو والہانہ تعلق، جذباتی لگاؤ ہے وہ پوری دنیا پر عیاں ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اردو کو ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے مگر المیہ یہ ہیکہ اردو کو یہ مقام سرکاری فائلوں اور کاغذات میں موجود ہے مگر عملی دنیا میں کسی نمبر پر نظر نہیں تھی۔ ہر برسراقتدار حکومتیں اپنی اقلیت دوستی کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں مگر عملی میدان میں وہ صفر نظر آتے ہیں۔ آج ہم چند ایسے مناظر سے آپ کے روبرو کراٹے ہیں جس سے حکومت کا اردو کے تئیں رویہ آشکار ہوجائے گا۔ این ٹی آر کے دورحکومت میں حسین ساگر (ٹینک بینڈ) کے پاس جملہ 34 مجسمے نصب کروائے گئے تھے جس میں صرف 3 مجسمے مسلم شخصیات کے ہیں۔ ان میں سے ایک ابوالحسن تانا شاہ (1699-1600-10-8) کا ہے جس کی سلطنت گولکنڈہ قطب شاہی حکومت 1687-1518 کے آٹھویں اور آخری فرما رواں گذرے ہیں۔ انہوں نے 1672 سے 1687 تک حکومت کی ان کی سرکاری زبان اردو، فارسی، دکنی اور ترکی تھی۔ اسی طرح دوسرا مجسمہ ابوسعید محمد مخدوم محی الدین (4 فبروری 1908 ۔ 25 اگست 1969 کاہے۔ یہ اردو کے مشہور انقلابی شاعر اور آندھراپردیش کمیونسٹ پارٹی کے بانی تھے جبکہ تیسرا مجسمہ افضل الدولہ آصف جاہ پنجم محبوب علی خان صدیقی (17 اگست 1866۔ 29 اگست 1911) کا ہے۔ یہ حیدرآباد کے 9 ویں نظام تھے انہوں نے 1869 سے 1911ء تک بادشاہت کی۔ ان کا مقبرہ مکہ مسجد میں واقع ہے۔ یہ وہ تین مشہور شخصیات ہیں جن کا زبان اردو کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے لیکن اردو کے ان شیدائیوں کے ساتھ ایسا بھونڈا مذاق کیا گیا ہے جس سے انہیں بھی تکلیف محسوس ہورہی ہوگی۔ آپ ان مجسموں کو غور سے دیکھیں۔ ان کے دائیں جانب انگریزی، بائیں جانب ہندی اور سامنے تلگو میں ان کا مکمل نام لکھا گیا ہے۔ بشمول ان تینوں کے جملہ 34 مجمسوں میں اردو کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ ان کو ان کی محبوب زبان سے دور رکھا گیا اور ایسی زبانیں چسپاں کردی گئیں جن سے ان کا صرف رسمی تعلق تھا۔ حکومت کی اردو کے ساتھ یہ ناانصافی ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ حکومتیں زبان اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھتی ہے اور مسلمانوں کو اپنا دشمن۔ حکومتوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر اردو کے ساتھ وہی یتیمانہ سلوک بھی بدستور جاری ہے۔ اردو کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا بھونڈا مذاق ہوسکتا ہیکہ اردو کے شیدائیوں کے تعاون کے تعارف میں بھی اردو کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ آج جو ایسی رپورٹ پیش کررہے ہیں اس کا مقصد یہ ہیکہ جس وقت، مجسمے نصب کئے گئے تھے اس وقت تلگودیشم حکومت تھی۔ تاہم اب چونکہ ٹی آر ایس کی حکومت ہے جو اپنے اقلیت دوست اقدامات کے بدولت اقلیتوں میں فی الحال ایک مثبت امیج رکھتی ہے۔ لہٰذا سیکولر عوام اور شیدائیاں اردو کی حکومت سے مطالبہ ہیکہ یہ وہ نہ صرف ان مجسموں کی تفصیلات انگریزی، ہندی، تلگو کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کروائیں بلکہ ان مجسموں کے ساتھ دیگر مشہور مسلم شخصیات جیسے مجاہد آزادی، ترے باز خان، مولوی علاء الدین جیسی شخصیتوں کے مجسمے بھی یہاں نصب کئے جائیں۔ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جنہیں انگریزوں نے کالاپانی کی سزاء سنائی تھی اور انہیں سزائے موت دی تھی۔ مگر افسوس کہ حکومت نے ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا۔ آخر میں ہم اردو داں افراد سے بھی گذارش کرتے ہیں کہ اردو کی بقاء کیلئے جدوجہد کرتے رہیں۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہیکہ ٹی آر ایس حکومت اس معاملے میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ abuaimalazad@gmail.com