ٹیم انا کی بی جے پی سے قربتیں

کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کتنی اجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں
ٹیم انا کی بی جے پی سے قربتیں
سماجی جہد کار انا ہزارے نے جس وقت کرپشن کے خلاف مہم شروع کی تھی اور دہلی میں جنتر منتر کے مقام پر بھوک ہڑتال شروع کی تھی تو سارے ہندوستان میں اس کی دھوم مچ گئی تھی ۔ ہندوستان کے تقریبا ہر شہر ‘ ہر گاوں اور ہر قریہ میں انا کی تائید میں علامتی بھوک ہڑتالیں ہوئیں اور شہروں میں تو باضابطہ ریلیاں منعقد کرتے ہوئے انا ہزارے سے اظہار یگانگت کیا گیا تھا ۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ مہم سیاسی طور پر انہیںچیلنج بن سکتی ہے ۔ تاہم انا کی مہم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور عوام میں پیدا ہوئی لہر کی وجہ سے یو پی اے حکومت نے کرپشن کی روک تھام کیلئے لوک پال بل کی منظوری کا عمل شروع کیا تھا اور اب یہ لوک پال بل پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کرچکا ہے ۔ انا ہزارے نے لوک پال بل کی منظوری کیلئے کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی سے اظہار تشکر کیا ہے جنہوں نے چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد پارٹی کے لوک سبھا انتخابی نتائج کو بہتر بنانے کے مقصد سے سرگرمیاں شروع کردی ہیں اور مسلسل ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے عوام کی توجہ مبذول ہورہی ہے ۔ انا ہزارے کی کرپشن کے خلاف مہم میں اروند کجریوال ‘ کرن بیدی ‘ سنتوش ہیگڈے ‘ سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ اور دوسرے شامل تھے تاہم اروند کجریوال اور کرن بیدی کو مرکزی قمام حاصل تھا ۔ شانتی بھوشن بھی ابتداء سے اس مہم کے ساتھ تھے ۔ جب کرپشن کے خلاف جدوجہد کے ساتھ کجریوال نے سیاسی راستہ اختیار کیا تو انا ہزارے کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہوگئے تاہم کجریوال نے سیاسی جماعت قائم کردی اور دہلی میں اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف انا ہزارے اور کچھ سیاسی جماعتوں کو بلکہ سارے ملک کو اچنبھے میں ڈال دیا ۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں ان کی کامیابی نے سیاسی جماعتوں میں ہلچل پیدا کردی اور اب تو یہ تک کہا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے سے روکنے میں کامیاب ہوجائیگی ۔ خود بی جے پی نے بھی اس خطرہ کو قبول کرلیا ہے اور اب وہ کجریوال کو نشانہ بنانے اور انکی مقبولیت کو گھٹانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے کل ہی کہا تھا کہ بی جے پی اور نریندر مودی کیلئے اس بات وزیر اعظم بننا شاذ و نادر ملنے والا موقع ہے اور دونوں کو چاہئے کہ اس موقع کو گنوانے سے گریز کریں۔ ان کا اشارہ عام آدمی پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی سمت تھا ۔ خود نریندر مودی بھی عام آدمی پارٹی سے خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں اور وہ اب اپنی مہم کو نئے انداز میں پیش کرنے کی تیاریاں بھی شروع کرچکے ہیں۔
بی جے پی کی حکمت عملی سے قطع نظر کجریوال کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انا ہزارے ٹیم کے ارکان بھی ابھی تک شاک کی کیفیت میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کجریوال کے چیف منسٹر بننے کے بعد کچھ ایسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن سے شبہ ہوتا ہے کہ انا ٹیم کے بعض ارکان نے بالواسطہ طور پر انا اور ان کی مہم کو کسی ایک مخصوص سیاسی گروپ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی ۔ درمیان میں کجریوال نے ان تمام کا راستہ روک دیا اور ملک کے رائے دہندوں کو ایک نئی سمت عطا کی ہے ۔ سابق آئی پی ایس عہدیدار اور ٹیم انا کی ایک اہم رکن کرن بیدی نے کرپشن کے خلاف مہم میں شدت سے حصہ لیا تھا اور اب وہ بی جے پی کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی کی حمایت میں کھلے عام اتر آئی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر کسی لوک سبھا حلقہ سے مقابلہ بھی کریں۔ انہوں نے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کو بالواسطہ اقتدار حوالے کرسکتی ہے جبکہ ان کا مطمع نظر کسی بھی طرح بی جے پی کوا قتدار سونپنا ہی نظر آتا ہے ۔ کرن بیدی کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کیلئے فکر مند ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ملک خوشحال ہو ‘ ترقی کرے ‘ تجربہ کار لوک حکمرانی فراہم کریںا ور ملک میں استحکام پیدا ہو ۔ ان کے خیال میں یہ سب کام نریندر مودی کرسکتے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ کانگریس نے کرپشن کے ذریعہ جو لوٹ مار مچائی تھی اس کو دیکھتے ہوئے اس پارٹی کو دوبارہ ووٹ یا اقتدار نہیں دیا جاسکتا ایسے میں صرف ایک جماعت یعنی بی جے پی ہی ایک واحد جماعت رہ جاتی ہے جو ان کے خیال میں ووٹ کی حقدار بن سکتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ خود انا ہزارے بھی کرن بیدی کے خیال سے اتفاق کرنے لگے ہیں اور انہوں نے کہدیا ہے کہ لوک پال بل کیلئے جو مہم انہوں نے شروع کی تھی وہ کامیاب رہی ہے اور اب ان کے ساتھی ارکان سیاسی راستہ اختیار کرنے کیلئے آزاد ہیں۔ یہی انا ہزارے ہیں جنہوں نے کرپشن کے خاتمہ کیلئے سیاسی راستہ اختیار کرنے اروند کجریوال کے خیال کی شدت سے مخالفت کی تھی اور اب وہ کجریوال سے بات چیت کرنے تک بھی تیار نہیں ہیں۔
کرن بیدی یا انا ہزارے کا یہ موقف ان شبہات کو تقویت بخشتا ہے کہ انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کی کرپشن کے خلاف مہم در اصل بی جے پی کے حق میں تھی اور ان کا اصل اور واحد مقصد کانگریس کے خلاف مہم چلاتے ہوئے ملک کے رائے دہندوں میں بی جے پی کے حق میں ایک لہر پیدا کرنا تھا جس میں وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ کجریوال کی کامیابی سے ان کے عزائم ناکام ہوگئے ہیں اور اب ملک بھر میںعام آدمی پارٹی کی لہر نے انہیں مزید پریشان کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان گوشوں کی جانب سے عام آدمی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ کھلے عام بی جے پی اور نریندر مودی کی حمایت کی جا رہی ہے ۔ ویسے تو ہر ایک کو اپنے سیاسی نظریات کے اظہار اور کسی کی تائید و حمایت کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن اپنے عزائم کے راست اظہار کی بجائے عوام کا استحصال کرتے ہوئے ان کا رخ کسی ایک سیاسی فکر کی جانب موڑنا دیانتداری نہیں ہوسکتا اور جس کام میں دیانتداری نہ ہو وہ کامیابی حاصل نہیںکرسکتی ۔ انا اور ان کے ساتھیوں کو بھی اب یہ واضح کرنا ہوگا کہ آیا کرپشن کے خلاف ان کی مہم خالص مخالف کرپشن مہم تھی یا کسی سیاسی عزم کا پیش خیمہ تھی ۔ یہ بھی اب ایک حقیقت ہے کہ کرن بیدی یا دوسرے بھلے ہی بی جے پی یا مودی کے حق میں اظہار خیال کریں لیکن ملک کے رائے دہندوں کو عام آدمی پارٹی اور دہلی کے رائے دہندوں نے جو سمت دکھائی ہے وہ بہت روشن اور واضح نظر آتی ہے ۔
پکوان گیس سلینڈرس کوٹہ میںاضافہ کی تجویز
چار ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی بدترین شکست کے بعد مرکز کی یو پی اے حکومت اب ایک بار پھر عوام کو رجھانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئی ہے ۔ اب حکومت سبسڈی پر فراہم کئے جانے والے پکوان گیس سلینڈرس کی تعداد میں اضافہ پر غور کر رہی ہے ۔ راہول گاندھی نے اس سلسلہ میں وزیر اعظم سے نمائندگی کی ہے ۔ کئی ارکان پارلیمنٹ بھی اس تجویز کے ساتھ مرکزی وزیر پٹرولیم ویرپا موئیلی سے نمائندگی کرچکے ہیں۔ حکومت کی یہ تجویز ملک کے عوام کو قدرے راحت فراہم کرسکتی ہے ۔ مسلسل مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتو ں نے عوام کا جینا محال کردیا تھا ۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ سے الگ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ صنعتی ترقی کی رفتار کے کم ہونے اور جملہ گھریلو پیداوار کی شرح گھٹنے کی وجہ سے بھی عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں پکوان گیس سلینڈرس پر جو سبسڈی فراہم کی جا رہی تھی اس کو آدھار کارڈ سے مربوط کرتے ہوئے الگ مسائل پیدا کئے گئے ہیں۔ ایسے میںعوام میں یو پی اے حکومت کے تئیں ناراضگی کی ایک شدید لہر پیدا ہوگئی ہے ۔ اس ناراضگی کو کانگریس نے انتخابی شکست کی صورت میں محسوس کرلیا ہے اور اب اس کے تدارک کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے پکوان گیس سلینڈرس کے سالانہ کوٹہ میں اضافہ کرے اور ساتھ ہی اس پر فراہم کی جانے والی سبسڈی کو آدھار کارڈ سے غیر مربوط کردیا جائے ۔ یہ سبسڈی تیل کمپنیوں ہی کوفراہم کردی جائے ۔ اس وقت تک آدھار کارڈ کا لزوم عائد نہیں کیا جانا چاہئے جب تک سبسڈی حاصل کرنے والے تمام استفادہ کنندگان آدھار کارڈ حاصل نہیں کرلیتے اور انہیں بینک اکاؤنٹ سے مربوط نہیں کیا جاتا ۔ سلینڈرس کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ آدھار کارڈ لز وم کو برخواست کرتے ہوئے حکومت عوام کی ناراضگی میں کچھ حد تک کمی کرسکتی ہے ۔