ٹرانسپورٹ نظام درہم برہم، بینکس بند رہے، مغربی بنگال اور کیرالا سب سے زیادہ متاثر
نئی دہلی ۔ 2 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ملک بھر میں ٹریڈ یونینوں کی ہڑتال سے عام زندگی مفلوج رہی۔ مغربی بنگال، تریپورہ، کیرالا اور کرناٹک کے بشمول تقریباً ریاستوں میں ہڑتال کی شدت سے کاروبار درہم برہم رہا۔ 10 سنٹرل ٹریڈ یونینوں نے آج دن بھر کیلئے ہڑتال کی تھی۔ لیبر قوانین میں تبدیلیوں اور پبلک سیکٹر یونینوں کو خانگیانے کے خلاف لیبر طبقہ احتجاج کررہا ہے۔ ٹریڈ یونین قائدین نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 15 کروڑ ورکرس نے اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ ان کے مطالبات کے 12 نکاتی چارٹر کی حمایت کرتے ہوئے ورکرس کی یہ ہڑتال کامیاب رہی، بی جے پی حمایت والی بی ایم ایس اور این ایف آئی ٹی یو نے ہڑتال میںحصہ نہیں لیا۔ ہڑتال کے باعث ٹرانسپورٹ نظام درہم برہم رہا۔ بنکنگ خدمات ٹھپ رہے اور دیگر خدمات بھی متاثر رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس بند کا زبردست اثر دیکھا گیا ہے۔ بنکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ 52 علاقائی دیہی بنکوں اور 23 پبلک سیکٹر بنکوں، 12 خانی سیکٹر کے بینکس میں کام بند رہا ہے اور زائد از 13000 کوآپریٹیو بینکس بھی اس ہڑتال میں شامل تھے۔ صرف ایس بی آئی، آئی ٹی او بی، آئی سی آئی سی آئی، ایچ ڈی ایف سی بینک اور اکزس بینک ہڑتال سے دور رہے۔ زائد از 10 لاکھ بنکنگ سیکٹر کے ورکرس نے ہڑتال کیا۔ آل انڈیا بینک ایمپلائز اسوسی ایشن جنرل سکریٹری ایچ وینکٹ چلم نے کہا کہ مغربی بنگال میں تشدد کے واقعات بھی نوٹ کئے گئے۔ پولیس نے 200 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں جزوی اثر دیکھا گیا جبکہ مضافاتی ٹرینیں، دکانات، مارکٹس اور تجارتی ادارے بند رہے۔ ریاستی نظم و نسق نے سرکاری بسوں کو چلایا جبکہ خانگی بسوں اور ٹیکسیوں کی خدمات پر جزوی اثر پڑا ہے۔ دارالحکومت دہلی میں مسافرین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں آٹو اور ٹیکسیوں کی ہڑتال سے روڈ پر سے یہ سواریاں غائب تھیں۔
کیرالا میں بینک اور پرائیویٹ بس سرویسیس، ٹیکس اور آٹو رکشا بھی سڑک سے غائب تھے۔ صرف خانگی کاریں اور دو پہیوں کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی ہوئی دیکھی گئیں۔ تریپورہ، کرناٹک میں بھی بند کامیاب رہا۔ حکومت کرناٹک کی ٹرانسپورٹ ورکرس نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا۔ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس سکریٹری ڈی ایل سچدیو نے کہا کہ گڑگاؤں میں پانچ لاکھ صنعتی ورکرس نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا۔ ماروتی سوزوکی پلانٹ کے ورکرس کام پر نہیں جاسکے اور راجستھان روڈ ویز ملازمین نے بھی ہڑتال کی تھی۔ ہونڈا موٹر سیکل اور اسکوٹر پلانٹ مانیسر بھی بند رہا۔ ہڑتال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد ورکر دشمن پالیسی کے خلاف ہیں اور حکومت کی ناکامیوں پر ناراضگی ظاہر کررہے ہیں۔ مغربی بنگال میں ضلع مرشدآباد کے بشمول ریاست کے چند مقامات پر بائیں بازو پارٹیوں کے ارکان اور ترنمول کانگریس کے کارکنوں میں پرتشدد جھڑپیں ہونے کے بعد تقریباً ایک ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ چیف منسٹر ممتا بنرجی نے کولکتہ میں کہا کہ جملہ 974 افراد کو مختلف اضلاع سے گرفتار کیا گیا ہے۔
بندرگاہوں میں ہڑتال پر ملاجلا ردعمل دیکھا گیا۔ جو بندرگاہوں پر جہاں ملک کا درآمد ۔ برآمد تجارت کا قابل لحاظ حصہ ہوا کرتا ہے۔ مال کی حمل و نقل میں زبردست اثر پڑا۔ شعبہ صنعت کی اطلاع کے بموجب ایک دن کی ہڑتال سے شعبہ صنعت کو 25 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان پہنچا۔ مرکزی وزیرفینانس ارون جیٹلی نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال کا بہت معمولی اثر پڑا۔ بائیں بازو کی پارٹیوں نے دعویٰ کیا کہ مرکزی ٹریڈ یونینس کی عام ہڑتال عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئی یہ مرکزی حکومت کی مبینہ مزدور شمن پالیسیوں کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہروں میں سے ایک تھا۔ سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ایس سدھاکر ریڈی نے کہا کہ یہ ایک عظیم کامیابی تھی جبکہ سی پی آئی ایم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہڑتال مرکز کی جانب سے کارکنوں کو ہڑتال سے باز رہنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کامیاب رہی جبکہ مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا ہیکہ مرکزی ٹریڈ یونینس کی ہڑتال کی اپیل کا بہت معمولی اثر دیکھا گیا۔ مرکزی وزیر لیبر نے ایک بیان میں کہا کہ ہڑتال مکمل طور پر ناکام ہوگئی کیونکہ 12 مرکزی یونینس میں سے ہڑتال میں شرکت نہیںکی۔ تین یونینیں غیرجانبدار رہی اور صرف 7 یونینس نے ہڑتال میں شرکت کی۔ ایک بین وزارتی کمیٹی وزیراعظم نے تشکیل دی ہے جس کے کئی اجلاس مرکزی ٹریڈ یونینس کے نمائندوں کے ساتھ محنت کش طبقہ کے مطالبات پر تبادلہ خیال کرچکے ہیں۔