ٹرمپ کی ایمیگریشن پالیسی

صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نادانی میں اب اپنے سامنے یکے بعد دیگرے چیلنجس کو جنم دے رہے ہیں۔ بعض اسلامی ممالک سے امریکہ میں داخل ہونے والوں کی سخت جانچ ، تارکین وطن کے لئے پابندیاں عائد کرتے ہوئے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کردینے کے بعد سب سے پہلا چیلنج خود اُن کے ملک کے قانون سے درپیش ہے۔ نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامہ پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا ہے جس کے تحت سات مسلمان اکثریتی ممالک سے آنے والے افراد پر امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ امریکی شہری آزادی کی تنظیم اے سی ایل یو نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم نامہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے اس حکم نامہ کے خلاف امریکہ کے بڑے شہروں کے بشمول ساری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے۔ حکم نامہ کے تحت جس پر انہوں نے جمعہ کو دستخط کئے تھے۔ امریکہ کا پناہ گزین پروگرام بھی معطل کردیا گیا تھا۔ ایران، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن کے شہریوں کو امریکہ میں داخلہ سے روک دینا کسی بھی صورت میں امریکی مفادات میں نہیں ہے۔ یہ بات امریکی سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ اس مسئلہ پر خود ٹرمپ کے مشیروں میں گہرے اختلافات پیدا ہوں گے، کیونکہ امریکی کانگریس میں ری پبلیکن پارٹی کے بعض لوگ سابق صدر امریکہ بارک اوباما کی پالیسی کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔خود ان کے بعض مشیروں کا ماننا ہے کہ آنے والے دنوں میں صدر کی حیثیت سے ٹرمپ نے یوں ہی غلطیوں پہ غلطیاں کرنا شروع کردیا تو امریکہ کو 9/11 سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ 16 سال سے امریکہ جس خوف کے سایہ میں جی کر اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں وضع کررہا تھا، اس پر صدر ٹرمپ نے اپنی منفی رائے کا مہر ثبت کردیا ہے تو امریکہ کو دوبارہ گریٹ بنانے کا نعرہ پس منظر میں چلا جائے گا۔ 9/11 کے بعد امریکہ کو کچھ نہیں ہوا مگر اس کا قوت پیدا کرکے بار بار امریکیوں کو ازخود عدم تحفظ سے احساس کا شکار لارنے والی جنہیں طاقتیں اب ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالف مسلم دنیا پالیسی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ ٹرمپ جس شعبہ سے ابھر کردیئے ہیں۔ وہاں صرف تجارتی الٹ پھیر کا کھیل ہوتا رہا ہے۔ سیاسی میدان اور عوامی زندگی دو مختلف امور میں ان کو سمجھنا اور سیکھنا ایک دقت طلب مرحلہ ہوتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے مشیر کو انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے بہرحال مخالفتوں سے گذرنا پڑے گا۔ امریکی غلطیوں اور دیگر اداروں نے ٹرمپ کی پالیسی کو غیرآئینی اور غیرامریکی قدم بتایا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ یوں اپنے ملک کو ساری دنیا کے سامنے کمزور کررہے ہیں۔ امریکی اقدار کی خلاف ورزی کرنا اس ملک کی دیرینہ تاریخی میراث کے مغائر ہے۔ عموماً امریکی منتخب صدر کو اپنے ملک کے دستور اور اقدار کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے مگر ٹرمپ نے انتخابی کامیابی کے حصول کی خاطر انتخابی جلسوں اور تقاریر کا غلط پروپگنڈہ پالیسی تیار کرلیا تھا۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار اٹھانے کا فیصلہ بھی ایک ایسے دور میں ہوا ہے جب ساری دنیا گلوبل ویلیج بنتی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی مخالف مسلم پالیسی کے ایگزیکٹیو آرڈر پر کی گئی دستخط کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کو چیلنج کیا گیا۔ سب سے زیادہ آئی ٹی کمپنیوں کے ایگزیکٹیوز اور تاجر برادری سے وابستہ چند اہم شخصیتوں نے کیا ہے۔ گوگل، ایپل، فیس بُک، مائیکرو سافٹ نے اپنے ملازمین کو ہدایت دی ہے کہ وہ ٹرمپ کی پالیسی کے پیش نظر امریکہ کے باہر کے ملکوں کا سفر نہ کریں۔ وہ امریکہ میں ہی رہنے کو ترجیح دیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے ملازمین کی صلاحیتوں سے محروم ہونا نہیں چاہتیں اور یہ بات ڈونالڈ ٹرمپ کو سمجھ لینی چاہئے کہ امریکہ کا ’’سوپر پاور‘‘ موقف صرف امریکی طاقت سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس کا راست تعلق بھی باہر کی دُنیا سے ہے۔ اسلامی دنیا سے ناطہ توڑ کر امریکہ کو سوپر پاور دوبارہ گریٹ امریکہ ملک ہونے کا منصوبہ رکھنے والے ٹرمپ کو ہر قدم پر ناکامیوں اور چیلنجس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ انجانے میں ان طاقتوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں جو اسلامی دہشت گردی کا نام دے کر ان کی دشمن طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کو اپنے ایگزیکٹیو آرڈر پر امریکی جج کی جانب سے عائد پابندی کے بعد ہوش میں آنا چاہئے، ان کے فیصلے اگر امریکی دستور کے مغائر اور غیرامریکی ہوں گے تو انہیں کامیابی نہیں ملے گی۔