حکومت اور عوام دونوں کی سرد مہری ، تاریخی یادگار بنانے سے گریز ، غیروں سے شکوہ کی بجائے اپنوں کے عملی اقدامات ضروری
حیدرآباد ۔ 27 ۔ فروری : ہندوستان میں اگر کوئی اتھلیٹ غیر معمولی مظاہرہ کرتا ہے تو اس پر ’ بھاگ ملکھا بھاگ ‘ جیسی فلمیں بنائی جاتی ہیں ۔ سچن ٹنڈولکر جیسے کرکٹ کھلاڑی کو اس کے ناقابل فراموش مظاہرہ پر ہندوستان کا سب سے اعلی ترین اعزاز بھارت رتن دیا جاتا ہے ۔ بقید حیات مجاہدین آزادی کو صرف اس لیے آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق انگریزوں کے خلاف لڑائی سے ہے اور ان مجاہدین آزادی کی اولاد کی اس لیے قدر دانی کی جاتی ہے کہ وہ انگریزوں سے لڑنے والی نسل کی نسل ہے لیکن افسوس بلکہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی و سماجی نظام میں فرقہ پرستی تعصب جانبداری کا زہر اس قدر سرائیت کر گیا ہے کہ دوچار مسلم مجاہدین آزادی کا ہی بار بار ذکر کیا جاتا ہے جب کہ جنگ آزادی میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ 3 لاکھ سے زائد علماء کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ انگریزوں کے جیل خانوں میں موت کی سزا پانے والوں میں مسلمان سب سے آگے رہے اسی طرح ملک کو آزادی دلانے کے دوران مال و زر لٹانے والوں میں بھی مسلمان سرفہرست رہے حد تو یہ ہے کہ کالا پانی کی سب سے پہلے جس ہندوستانی مجاہد آزادی کو سزا دی گئی وہ بھی ایک مسلمان ہے ۔ قارئین ! کالا پانی کی سزا کا نام سنتے ہی نلگنڈہ کے رہنے والے جید عالم دین مولوی سید علا الدین کا نام ذہن میں ابھرتا ہے اس کے ساتھ ہی پہلی جنگ آزادی میں حصہ لے کر انگریزوں اور ان کے حواریوں کی نیند حرام کرنے والے طرہ بازخاں اور چیدہ خاں کی یاد بھی آتی ہے ۔ مولوی سید علاء الدین ، طرہ باز خاں اور چیدہ خاں کے نام کے ساتھ برطانوی ریسڈنسی کا نام بھی جوڑا ہوا ہے ۔ کوٹھی میں واقع وسیع و عریض اور فن تعمیر کی شاہکار عمارت میں آج جو ویمنس کالج قائم ہے کبھی وہاں برٹش ریسڈنسی ہوا کرتی تھی ۔
اس ریسڈنسی کے دربار ہال کے عقبی حصہ میں جیل کوٹھریاں ہیں جہاں بتایا جاتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں جب انگریز فوج اور پولیس میں شامل ہندوستانی اہلکاروں نے بغاوت کردی تھی اس وقت اورنگ آباد میں تعینات برطانوی فوج و پولیس کے ہندوستانی ملازمین نے بھی علم بغاوت بلند کردیا تھا اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کو سونے کی چڑیا ہندوستان سے باہر نکال پھنکنے کے لیے کمربستہ ہوگئے تھے ۔ تاہم اورنگ آباد میں سپاہیوں کی بغاوت کو کچلتے ہوئے جن محب وطن سپاہیوں کو گرفتار کیا گیا تھا انہیں ویمنس کالج کوٹھی میں خصوصی طور پر تعمیر کردہ جیل کی کوٹھریوں میں رکھا گیا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جیل میں 500 سے زائد مسلم مجاہدین آزادی کو قید کیا گیا ۔ تاریخی کتب میں آیا ہے کہ دہلی میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا ۔ اور اہم سپاہیوں بشمول چیدہ خاں کی گرفتاری کے لیے جال بچھا دیا گیا تھا تاہم چیدہ خاں اور ان کے ساتھی حیدرآباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ لیکن اپنوں کی غداری و مخبری کے نتیجہ میں چیدہ خاں کو جن کی گرفتاری کے لیے انگریزوں نے اس وقت کے تین ہزار روپئے کا انعام رکھا تھا حیدرآباد آمد کے ساتھ ہی گرفتار کر کے برطانوی ریسڈنسی ( ویمنس کالج کوٹھی ) کے جیل میں قید کردیا گیا اور وہاں انہیں سخت اذیتیں دی جانے لگی ۔ مسلم مجاہدین آزادی کی اس حالت زار کو دیکھ کر مولوی سید علاء الدین جمعدار طرہ باز خاں اور دیگر تین علماء نے مل کر مسلم سرفروشوں کا ایک دستہ تیار کیا اور منصوبہ کے مطابق برٹش ریسڈنسی پر حملہ کردیا ۔ اس لڑائی میں برطانوی فوج کی فائرنگ میں 30 سے زائد لوگ مارے گئے ۔ مجاہدین تقریبا ایک رات اور ایک دن تک انگریز فوج کا مقابلہ کرنے کے باوجود چیدہ خاں کو قید سے آزاد کرانے میں ناکام رہے ۔ مولوی علا الدین اگرچہ زخمی ہو کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن انہیں منگلا پلی میں گرفتار کرلیا گیا اور پھر انہیں کالے پانی کی سزا سنائی گئی جب کہ جمعدار طرہ باز خاں کو جو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے توپران کے قریب انکاونٹر میں شہید کردیا گیا یہ سب کچھ اپنوں کی غداری سے ممکن ہوسکا ۔
انگریزوں کے ظلم و بربریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہید طرہ باز خاں کو برٹش ریسیڈنسی کوٹھی کے قریب پھانسی پر لٹکایا گیا جہاں آج کوٹھی بس اسٹانڈ اور طرہ باز خاں کی یادگار قائم ہے ۔ اس کے باوجود مولوی سید علا الدین ، چیدہ خاں اور طرہ باز خاں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عثمانیہ میڈیکل کالج تا کوٹھی روڈ کو طرہ باز خاں سے موسوم کئے جانے کے باوجود کوئی بھی اسے طرہ باز خاں روڈ سے واقف ہی نہیں ہے ۔ جب کہ ہماری حکومتوں کی غفلت و لاپرواہی سے مسلم مجاہدین آزادی کی یادگار ویمنس کالج کوٹھی میں واقع جیل کی کوٹھریاں کوڑے دان میں تبدیل ہوگئی ہیں ۔ اس کے لیے دوسروں سے شکوہ کرنے اور ان پر الزام عائد کرنے کی بجائے ہمیں اپنا خود کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم نے ان مجاہدین کو فراموش کردیا کبھی ان کے نام سے کوئی کانفرنس ، سمینار یا جلسے منعقد نہیں کئے جاتے جب کہ کیپٹن پانڈو رنگاریڈی جیسی سیکولر شخصیتیں ان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہند پارلیمنٹ میں مولوی سید علا الدین ، طرہ باز خاں اور چیدہ خاں جیسے مجاہدین کے پورٹریٹ نصب کرے ، نصابی کتب میں ان کے بارے میں اسباق شامل کرے اور ویمنس کالج کوٹھی میں موجود جیل کی کوٹھریوں کو خصوصی یادگار میں تبدیل کرے ۔ آپ کو بتادیں کہ آج جو سلطان بازار ہے وہ کبھی رزیڈنسی بازار اور رزیڈنسی روڈ شاہراہ عثمانی کہلایا کرتی تھی ۔ 1857 تک رزیڈنسی کوٹھی کا کوئی حصار نہ تھا ۔ لیکن طرہ باز خاں مولوی سید علاء الدین وغیرہ کی قیادت میں عربوں اور روہیلوں کے حملے کے بعد اس عمارت کی حصار بندی کی گئی اور اس کے قریب فوجی چھاونی قائم کی گئی اور سلطان بازار اسی فوج کے لیے ہی قائم کیا گیا تھا ۔ واضح رہے کہ رزیڈنسی کوٹھی کی تعمیر 1800 میں یوروپی انجینئر کی نگرانی میں شروع ہوئی ۔ 1947 میں آزادی کے بعد رزیڈنسی ختم کردی گئی اور اب اس تاریخی عمارت میں جامعہ عثمانیہ کا ویمنس کالج قائم ہے ۔ کاش اس کالج میں موجود جیل کی کوٹھریوں کو یادگار میں تبدیل کیا جاتا تو کتنا بہتر ہوتا ۔۔