باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ووٹنگ مشینوں پر شبہات
ہندوستان میں جس وقت سے رائے دہی ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ کروانے کا عمل شروع ہوا ہے اس وقت سے ان مشینوں کے تعلق سے شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا ہے ۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو امیدوار شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر یا چھیڑ چھاڑ کا الزام عائد کرتے ہیں۔جیتنے والے امیدوار ان الزامات کو یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ یقینی طور پر ان کا رد عمل فطری ہے کیونکہ انہیں جیت مل چکی ہوتی ہے اور جمہوریت میں جیت اور کامیابی ہی اصل معنی رکھتی ہے ۔ تاہم ایک بات مسلسل تقویت پاتی جا رہی ہے کہ اکثر و بیشتر ووٹنگ مشینوں میںالٹ پھیر کے تعلق سے لوگوں میں جو شبہات ہیں وہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ جو شبہات ہیں ان کو دور کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سے تو خود دہلی کی اسمبلی میں ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کا عملی مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ماضی میں جب اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست ہوئی تھی اور کانگریس نے اقتدار پر واپسی کی تھی اس وقت خود بی جے پی کے قائدین اور حد تو یہ ہے کہ اس وقت کے نائب وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہے ایل کے اڈوانی نے تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے شبہات ظاہر کئے تھے ۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی کی شکست کے بعد این چندرا بابو نائیڈو نے ووٹنگ مشینوں پر شبہات ظاہر کرتے ہوئے بیالٹ پیپر پر رائے دہی کروانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ غرض کہ ہر دور میں کسی نہ کسی گوشے سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر شبہات کااظہار کیا جاتا رہا ہے اور ہر وقت کامیاب امیدوار اور فتح حاصل کرنے والی جماعتوں نے ان شبہات کو یکسر مسترد کردیا تھا لیکن جب ان ہی جماعتوں کو دوسری بار شکست ہوئی تو انہوں نے خود اس پر شبہات ظاہر کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کی تھی ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو جمہوریت کیلئے درست نہیں کہی جاسکتی ۔ اب اترپردیش میں شہری مجالس مقامی کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے ہیں تب بھی مختلف گوشوں کی جانب سے ان شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ بعض مثالیں اس معاملے میں ایسی ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ان شبہات کو دور کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔
یو پی اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد بہوجن سماج پارٹی نے ووٹنگ مشینوں پر شبہات ظاہر کئے تھے ۔ اس وقت ان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔ اب دو کارپوریشنس میں مئیر کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد بھی بی ایس پی کا یہی الزام ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کی گئی ہے ۔ شبہات کو تقویت اس وجہ سے بھی ملتی ہے کہ بعض بوتھس پر کچھ امیدواروں کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا ہے جبکہ خود امیدوار نے اسی بوتھ پر اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی امیدوار خود اپنے حق میں اپنا ووٹ استعمال نہیںکرے ؟ ۔ اسی طرح رائے دہی کے دوران کئی مقامات پر امیدواروں اور رائے دہندوں نے پولنگ حکام کی توجہ مبذول کروائی تھی ۔ آپ چاہے کسی بھی امیدوار کے نام کے آگے بٹن دبائیں ووٹ ایک مخصوص امیدوار کے حق میں ہی رجسٹر ہو رہا تھا ۔ یہ عملی طور پر سامنے آ رہی شکایات ہیں اور اسے یکا دوکا معاملات قرار دیتے ہوئے مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کسی امیدوار کی جیت یا ہار کا یا پھر کسی جماعت کی کامیابی یا شکست کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ جمہوریت کا اور جمہوری اصولوں کا معاملہ ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت اور اس کی افادیت پر ان مثالوں سے سوال پیدا ہونے لگے ہیںاورجمہوریت پر یقین اگر کمزور ہوتا ہے تو یہ ہماری جمہوریت کا اور خود ملک کا سب سے بڑا نقصان ہوگا اور اس کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا کرنا حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کا ذمہ بنتا ہے تاہم اب تک حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں ہی نے ان شکایات اور شبہات کو زیادہ اہمیت دینے سے گریز کیا ہوا ہے ۔
اگر کوئی شکست خوردہ امیدوار اس تعلق سے شبہات کا اظہار کرتا ہے تو یہ اس کافطری رد عمل قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مسلسل ایک ہی طرح کے الزامات کا عائد کیا جانا اور خود رائے دہندوں کی جانب سے رائے دہی کے دوران ان شکایات کو منظر عام پر لانا ایسا نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جاسکے ۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس پر اس ملک میں جمہوریت کی پابندی اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا ذمہ عائد ہوتا ہے ۔ اسے اس ملک کی جمہوریت کی نگہبانی کا ذمہ پورا کرنا چاہئے ۔ جو شبہات ظاہر کئے جا رہے ہوں وہ ہو سکتا ہے کہ محض شبہات ہی ہوں اور ان میں کوئی سچائی بھی نہ ہو لیکن ان شبہات کو دور کرنا سب کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت ہو یا الیکشن کمیشن سبھی کو اس تعلق سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہر انتخاب اور ہر نتیجہ شبہات کے دائرہ میں رہے گا اور یہ شبہات جمہوریت کیلئے صحتمند نہیں ہوسکتے ۔