شیخ محمد اقبال کے دور میں کی گئی کارروائیوں سے دستبرداری کی کوششیں ۔ بعض متولیوں کے خلاف مقدمات سے دستبرداری
حیدرآباد۔/22جنوری، ( سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود میں اگر اعلیٰ عہدیداروں سے قربت ہو تو پھر کسی بھی کام کی تکمیل ممکن ہے۔ وقف بورڈ ہو یا کوئی اور اقلیتی ادارہ عہدیداروں کی سرپرستی کے ذریعہ ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا ثبوت کروڑہا روپئے کی اوقافی جائیدادوں کا محافظ وقف بورڈ ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے وقف بورڈ پر مستقل عہدیدار مجاز موجود نہیں جس کے نتیجہ میں اوقافی جائیدادوں سے متعلق معاملات کا کوئی پرسان حال نہیں۔ متحدہ آندھرا پردیش میں اسپیشل آفیسر کی حیثیت سے پولیس عہدیدار شیخ محمد اقبال نے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے جو اقدامات کئے تھے انہیں بتدریج کمزور کرنے یا پھر کارروائیوں کو واپس لینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ شیخ محمد اقبال کے دور میں متولیوں کے خلاف شروع کی گئی کارروائیوں کو نہ صرف روک دیا گیا بلکہ بعض متولیوں کے خلاف درج کردہ مقدمات سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ شیخ محمد اقبال نے ایک متولی کی جانب سے وقف بورڈ کو فنڈز کی عدم ادائیگی اور کرایوں کے حسابات پیش نہ کرنے پر فوجداری مقدمہ درج کیا تھا۔ اعلیٰ عہدیداروں سے قربت کے نتیجہ میں وقف بورڈ کے ماتحت عہدیدار اس مقدمہ کی پیشرفت سے خوفزدہ تھے اور یہ معاملہ برفدان کی نذر ہوچکا تھا۔ گزشتہ دنوں وقف بورڈ کی جانب سے متعلقہ پولیس اسٹیشن کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے مقدمہ سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ متولی کے ایک رشتہ دار جو اقلیتی بہبود کے ایک ادارہ میں اہم عہدہ پر فائز ہیں انہوں نے اعلیٰ عہدیداروں کو مقدمہ سے دستبرداری کیلئے راضی کرلیا اور پولیس کو مکتوب روانہ کردیا گیا۔ اس طرح وقف بورڈ کے اُمور میں غیر متعلقہ افراد کی مداخلت عروج پر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شیخ محمد اقبال کے دور میں شروع کی گئی تحقیقات کو روک دیا گیا اور اعلیٰ عہدیداروں کے ذریعہ متولیوں کے حق میں فیصلے کئے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ شیخ محمد اقبال نے 6 ماہ کے دوران کئی اہم اوقافی اداروں کو نہ صرف وقف بورڈ کی راست تحویل میں لیا تھا بلکہ متولیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ عدالتوں میں زیر دوراں مقدمات کو کمزور کرنے کیلئے جوابی حلفنامے داخل نہیں کئے جارہے ہیں جس سے متولیوں کو عدالت میں کامیابی کے امکانات کے روشن ہیں۔ آئی ایف ایس عہدیدار ایم جے اکبر نے اسپیشل آفیسر کی حیثیت سے شیخ محمد اقبال کی کارروائیوں کو برقرار رکھا تھا اور خاطی پائے جانے والے متولیوں کے خلاف تحقیقات کو جاری رکھا۔ لیکن انہیں کسی وجہ کے بغیر اس ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا۔ اسی طرح موجودہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر پر بھی غیر متعلقہ افراد کا دباؤ ہے اور انہیں تبدیل کرنے حکومت میں اثر ورسوخ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر مزید چند ماہ تک یہی صورتحال رہی تو اندیشہ ہے کہ کئی قیمتی اوقافی جائیدادیں تلف ہوجائیں گی اور خاطی افراد عدالتوں میں بری ہوجائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیخ محمد اقبال کے دور میں کی گئی کارروائیوں کی تفصیلات فراہم کرنے سے وقف بورڈ کے عہدیدار انکار کررہے ہیں کیونکہ کئی معاملات میں اندرونی طور پر ملی بھگت کے ذریعہ کارروائیوں کو کمزور کیا جارہا ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ وہ وقف بورڈ پر کسی اور پولیس عہدیدار کو تعینات کرے تاکہ وہ شیخ محمد اقبال کی طرح اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کرسکیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی حلیف جماعت مجلس کی جانب سے وقف بورڈ کے اُمور میں مداخلت کی جارہی ہے اور پارٹی سے وابستہ قائدین وقف بورڈ پہنچ کر اپنی دلچسپی سے متعلق فائیلیں طلب کررہے ہیں۔