تحقیقاتی ایجنسیوں کی ابتدائی تحقیقات ، بورڈ کے عہدیداروں اور وقف مافیا کی کارستانی
حیدرآباد۔ 4 ڈسمبر (سیاست نیوز) وقف بورڈ سے جعلی این او سی کی اجرائی اسکام کی تحقیقات کے دوران بورڈ کے عہدیداروں اور وقف مافیا کی ملی بھگت سے متعلق کئی انکشافات منظر عام پر آئے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ایجنسیوں کو ابتدائی جانچ کے دوران پتہ چلا ہے کہ وقف بورڈ میں جعلی این او سی کی اجرائی کا ریاکٹ طویل عرصہ سے سرگرم ہے اور کئی جائیدادوں کے سلسلہ میں اس طرح کے جعلی این او سی جاری کرتے ہوئے اوقافی املاک کو تباہ و تاراج کیا گیا۔ اراضیات کی پلاٹنگ اور اوقافی جائیدادوں کے ناجائز قابضین کے ساتھ وقف بورڈ کے اندرونی عناصر کی ملی بھگت سے یہ گروہ کام کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقف بورڈ میں کوئی بھی ملازم یا عہدیدار وظیفہ پر سبکدوشی کے باوجود دوبارہ عارضی طور پر خدمات انجام دینے میں دلچسپی دکھاتے ہیں اور کئی ریٹائرڈ عہدیداروں کو موجودہ بورڈ میں دوبارہ بازمامور کیا گیا ہے۔ عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران اس گروپ نے کئی اہم اوقافی اراضیات اور جائیدادوں کو نقصان پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ غیر مجاز قابضین کو جعلی این او سی جاری کرتے ہوئے مستقل تعمیرات کی اجازت دی گئی۔ تحقیقاتی عہدیدار یہ جان کر حیرت میں پڑ گئے کہ جعلی این او سی کا حصول وقف بورڈ سے کوئی مشکل کام نہیں۔ وقف بورڈ میں کوئی بھی کام بآسانی سے کیا جاسکتا ہے صرف شرط یہ ہے کہ اندرونی عناصر سے تعلقات ہونے چاہئے۔ اگر کوئی رقومات خرچ کرنے تیار ہو تو اس کے لیے کوئی بھی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا مشکل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 10 تا 15 برسوں میں کئی اہم اوقافی جائیدادوں کی اوریجنل فائلیں غائب کردی گئیں۔ وقف بورڈ کے ریکارڈ سیکشن کا کوئی پرسان حال نہیں اور رقم کے عوض کوئی بھی فائل اور کسی بھی جائیداد کے دستاویزات بآسانی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ دستاویزات اور فائلوں کو غائب کرتے ہوئے عدالتوں میں زیر دوران مقدمات میں وقف بورڈ کو شکست سے دوچار کیا گیا۔ وقف بورڈ نے کبھی بھی دستاویزات کو محفوظ کرنے پر توجہ نہیں دی جس کے نتیجہ میں جعلی این او سی اور دستاویزات کو غائب کرنے میں سرگرم ٹولی نے لینڈ مافیا کے حق میں بھاری رقومات کے عوض کام کیا۔ چیف منسٹر کی جانب سے وقف بورڈ کے دفتر اور ریکارڈ روم کو مہربند کرنے کے بعد اگرچہ تحقیقات مقامی پولیس کے حوالے کی گئیں تاہم سی بی سی آئی ڈی اور انٹلیجنس کے حکام بھی وقف بورڈ پر مسلسل نگرانی کیئے ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ دفتر آنے والے افراد اور عہدیداروں و ملازمین کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہوئے اوقافی جائیدادوں کی تباہی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملکاجگیری میں درگاہ حضرت میر محمودؒ کی اراضی کے سلسلہ میں جو جعلی این او سی جاری کیا گیا تھا، اس کے اہم درخواست گزار کے بورڈ کے بعض عہدیداروں سے گہرے مراسم کی اطلاعات ملی ہیں۔ درخواست گزار نرسنگ رائو طویل عرصہ سے وقف بورڈ میں بعض عہدیداروں کے چیمبرس میں مستقل ویزیٹر کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ جس عہدیدار کے پاس اس شخص کی زائد آمد تھی اس عہدیدار پر ملکاجگیری کی بعض فائلوں کو غائب کرنے کا الزام ہے۔ حالیہ جعلی این او سی کے معاملے میں بھی اس عہدیدار کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جعلی این او سی اور لینڈ مافیا کو دستاویزات کی فراہمی کے سلسلہ میں وقف بورڈ کے بعض برسر خدمت اور ریٹائرڈ عہدیدار شک کے گھیرے میں ہیں۔ ان میں سے بعض نے اپنی خدمات وقف بورڈ سے ختم کرنے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اعلی عہدیداروں سے نمائندگی کی ہے تاکہ خود کو تحقیقات سے بچایا جاسکے۔ این او سی اور دستاویزات سے متعلق اسکام کے حقیقی خاطیوں اور گزشتہ کئی برسوں سے جاری ان سرگرمیوں کو منظر عام پر لانے کے لیے وقف بورڈ کے تمام معاملات کی جانچ سی بی سی آئی ڈی یا پھر سی سی ایس کو حوالے کی جانی چاہئے۔ وقف امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے بغیر خاطیوں کو منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا اور تحقیقات کا دائرہ کار واقع ہونا چاہئے۔