ایس ایم بلال
حیدرآباد ۔28 ۔ اپریل (سیاست نیوز) جنوبی ہند کی دو تلگو ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ میں ایک ہی دن 7 اپریل کو پولیس انکاؤنٹرس کے دو الگ الگ واقعات پیش آئے تھے۔ آندھراپردیش کے ضلع چتور کے سیشا چلم جنگلات میں سرخ صندل کے اسمگلروں کے نام پر ٹاملناڈو کے 20 غریب لکڑ ہاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا تو دوسری طرف تلنگانہ کے ضلع نلگنڈہ میں آلیر کے مقام پرپانچ زیر دریافت مسلم قیدیوں کو حیدرآباد کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت کیلئے ورنگل سے منتقلی کے دوران پولیس انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا۔ دونوں واقعات میں پر اسرار اور ناقابل فہم حالات میں پولیس انکاونٹر کے ہیں لیکن چتور واقعہ پر انگریزی و تلگو میڈیا کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا اور حتیٰ کہ حیدرآباد ہائی کورٹ نے بھی تحقیقات کے عمل پر ناراضگی کااظہار کیا ہے لیکن آلیر انکاؤنٹر پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے تعصب کے سبب خاموشی اختیار کی۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی اور قیادت کی دعویدار جماعت نے بھی حق پرستی کے بجائے مصلحت پسندی کو ترجیح دی۔ نام نہاد غیر سرکاری تنظیموں کی روایتی گرموشی بھی سرد مہری میں تبدیل ہوگئی ۔ چنانچہ وقار انکاؤنٹر کی تحقیقات محض ایک دکھاوا اور آنسو پونچھنے کی ایک جھوٹی کوشش ثابت ہوگئی ۔ سی بی آئی یا کم سے کم برسر خدمت ہائی کورٹ جج کے ذریعہ تحقیقات تو درکنار حکومت تلنگانہ کی طرف سے تشکیل شدہ خصوصی تحقیقاتیی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تحقیقات بھی اب لیت و لعل کا شکار ہوگئی ہیں۔ ان تحقیقات سے اگرچہ خاطی پولیس عہدیداروں کی نشاندہی کی توقع ناممکن نہ سہی مشکل ضرور معلوم ہوتی ہے لیکن اس مرحلہ پر تحقیقات کا عمل ہی برفدان کی نذر ہوگیا ہے ۔ اس طرح ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ تحقیقات کا چراغ سلگنے سے پہلے ہی بجھ گیا ہے۔سی بی آئی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کر کے حکومت نے ایس آئی ٹی تحقیقات کا اعلان کیا تھا ۔ اسی وقت یہ اندیشے ظاہر کئے گئے تھے کہ یہ تحقیقات نہ صرف دکھاوا ہیں اور وقت ضائع ہوگا۔ اب یہ اندیشے صد فیصد درست ثابت ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ایس آئی ٹی کے سربراہ مسٹر سندیپ شنڈلیہ نے طویل رخصت حاصل کرلی ہے ۔ اب تحقیقات شروع ہونے سے قبل ہی التواء کا شکار ہوگئی ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت نے 13 اپریل کو 6 پولیس عہدیداروں پر مشتمل اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم ( ایس آئی ٹی ) قائم کی تھی جس کی قیادت کی ذمہ داری سابقہ ایڈیشنل کمشنر آف پولیس کرائمس حیدرآباد سٹی اور موجودہ انسپکٹر جنرل آف پولیس مسٹر سندیپ شنڈلیہ کے حوالے کی تھی۔ اس ٹیم میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کھمم مسٹر شاہنواز قاسم ‘ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس انٹلی جنس ایم دیانند ریڈی ‘ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس مادھا پور مسٹر ایم رمنا کمار اور سٹی پولیس کے دو انسپکٹران ایل راجہ وینکٹ ریڈی (چادر گھاٹ) پولیس اسٹیشن اور ایس رویندر (ہمایوں نگر) شامل ہیں۔ حکومت نے ایس آئی ٹی کو کریمنل پروسیجر کوڈ کے تحت اس لئے قائم کیا ہے چونکہ یہ کیس خصوصی تحقیقات کا متقاضی ہے۔ مسٹر سندیپ شنڈلیہ جو ریاست کے سینئر آئی پی ایس عہدیدار ہیں اور ان کا تعلق 1993 ء آئی پی ایس بیاچ سے ہے ۔ حکومت نے انہیں ایس آئی ٹی کا سربراہ بناتے ہوئے انکاونٹر کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی تھی تاکہ حقائق کا پتہ لگایا جاسکے ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایس آئی ٹی نے ٹیم تشکیل دیئے جانے کے 15 دن بعد بھی کیس سے متعلق کوئی پیشرفت نہیں کی حتی کہ انکاونٹر کے مقام کا معائنہ بھی اب تک نہیں کیا۔ مسٹر شنڈلیہ کے اچانک 20 دن طویل رخصت پر روانہ ہونے سے ریاست کے سینئر پولیس عہدیدار اور ایس آئی ٹی میں موجود دیگر پولیس آفیسرس الجھن کا شکار ہوگئے ۔حکومت کی جانب سے اہمیت کی حامل انکاؤنٹر کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری حوالے کئے جانے پر بھی سینئر آئی پی ایس عہدیدار کی اچانک رخصت پر روانگی نے تحقیقات پر کئی سوالیہ نشان پیدا کردیئے ہیں ۔ مسٹر شنڈلیہ نے ایل ٹی سی (Leave Travel Concession) کی بنیاد پر رخصت حاصل کی ہے اور وہ 18 مئی کو اپنی ڈیوٹی پر رجوع ہوں گے اور بعدازاں ایس آئی ٹی کارروائی کا آغاز ہونے کی امید ہے ۔ آلیر انکاونٹر کیلئے قائم کی گئی ایس آئی ٹی ابتداء سے ہی تنقید کا شکار رہی ہے کیونکہ اس ٹیم میں بعض ایسے پرانے چہرے موجود ہیں جو مہدی پٹنم آرمی گیریسن میں پیش آئے 11 سالہ کمسن طالب علم شیخ مصطفی الدین قتل کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے رکن تھے اور یہ کیس بھی برفدان کی نذر ہوچکا ہے کیونکہ کسی بھی خاطی فوجی عہدیدار کو قصور وار قرار دینے میںایس آئی ٹی ناکام ثابت ہوئی ہے ۔واضح رہے کہ 7 اپریل کو ورنگل پولیس کی اسپیشل آرمڈ ریزرو پارٹی جس کی قیادت سب انسپکٹر اودے بھاسکر کررہے تھے نے وقار احمد اور اس کے چار ساتھیوں سے امجد علی ‘محمد ذاکر ‘ڈاکٹر حنیف اور اظہار خان کو ورنگل سنٹرل جیل سے حیدرآباد نامپلی کریمنل کورٹ کو منتقلی کے دوران ضلع نلگنڈہ کے آلیر علاقہ میں فرضی انکاونٹر میں ہلاک کردیا تھا۔ ان زیر دریافت قیدیوں پر پولیس نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ پولیس کے اسلحہ چھین کر ان پر حملے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس تحویل سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ حالانکہ اس حقیقت سے اب سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ وقار اور اس کے ساتھی انکاونٹر کے وقت ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور وہ مشکل سے کوئی حرکت بھی نہیں کرسکتے تھے تو پولیس پر حملہ کی کوشش کیسے کرسکتے تھے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ آلیر انکاونٹر کا واقعہ تنازعہ کا شکار ہے اور اس انکاونٹر کو کئی تنظیموں اور مہلوکین کے والدین نے فرضی قرار دیا ہے ۔