وسط مدتی انتخابات، پارٹی امکانات سے کے سی آر مطمئن نہیں

بنیادی سطح پر عوامی ناراضگی کا جائزہ لینے وزراء کو ہدایت، کانگریس کی بڑھتی سرگرمیوں سے مقابلہ میں ناکامی کا احساس
حیدرآباد۔ 23 اگست (سیاست نیوز) تلنگانہ میں وسط مدتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو اپوزیشن کو الجھن میں مبتلا کرنے کے لیے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹی آر ایس کا موقف مستحکم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چیف منسٹر خود وسط مدتی انتخابات سے خوفزدہ ہیں۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ریاستی وزراء کے ساتھ کل منعقدہ 5 گھنٹے سے زائد طویل اجلاس میں تازہ ترین سیاسی صورتحال بشمول وسط مدتی انتخابات کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ چیف منسٹر نے ڈسمبر میں وسط مدتی انتخابات کے بارے میں واضح طور پر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا تاہم وہ بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ انتخابات چاہے مقررہ وقت پر ہوں یا وقت سے قبل ٹی آر ایس کا موقف مستحکم ہے اور وہ 100 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔ کے سی آر نے پارٹی کی کامیابی کو یقینی ظاہر کرنے کے لیے مختلف مواقع پر کیے گئے سروے رپورٹس کا بار بار حوالہ دیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چیف منسٹر امکانی نتائج کے بارے میں خود اندیشوں کا شکار ہیں۔ پارٹی قائدین اور وزراء میں چیف منسٹر کے موقف کے بارے میں متضاد خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع کا ماننا ہے کہ ڈسمبر میں وسط مدتی انتخابات کے امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ تاہم اس کا انحصار الیکشن کمیشن کی منظوری پر ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر اسمبلی تحلیل کی جاتی ہے تو اندیشہ ہے کہ کمیشن ڈسمبر میں 3 ریاستوں کے ساتھ کرناٹک اسمبلی کے انتخابات کرانے کے بجائے لوک سبھا چنائو تک اسے ٹال سکتا ہے۔ کیوں کہ کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے اندرون 6 ماہ الیکشن کرانے پڑتے ہیں اور اکٹوبر یا نومبر میں اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں کمیشن کے پاس مئی تک کا وقت رہے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر الیکشن کمیشن کے عہدیداروں سے ربط میں ہیں اور بعض ارکان پارلیمنٹ کے ذریعہ ڈسمبر میں انتخابات کی منظوری حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈسمبر میں وسط مدتی انتخابات کا انحصار الیکشن کمیشن پر منحصر ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینی وزراء کی اکثریت نے چیف منسٹر کو بتایا کہ اضلاع میں ٹی آر ایس کا موقع مستحکم ہے اور وسط مدتی انتخابات کی صورت میں پارٹی دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے وزراء کو مشورہ دیا کہ وہ صرف زبانی دعوئوں کے بجائے زمینی حقائق سے انہیں واقف کرائیں۔ چیف منسٹر نے سرکاری اسکیمات کے فوائد حقیقی مستحقین تک پہنچنے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ مختلف اضلاع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسکیمات کے فوائد صرف ٹی آر ایس کے حامیوں کو دی جارہی ہیں جس سے غیر سیاسی افراد میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ریاستی وزراء اور عوامی نمائندے اپنے حامیوں کے نام استفادہ کنندگان کی فہرست میں شامل کررہے ہیں۔ چیف منسٹر نے جاننا چاہا کہ عوامی ناراضگی کی کیا وجہ ہے اور اسے کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کی سرگرمیوں میں شدت اور عوام تک رسائی سے ٹی آر ایس قیادت الجھن کا شکار ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے وزراء پر ناراضگی جتائی کہ وہ اپنے اضلاع میں کانگریس پارٹی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چیف منسٹر نے واضح کیا کہ دو ستمبر کو شہر کے مضافاتی علاقہ میں ہونے والے جلسہ عام میں عوام کی تعداد اور ان کے تاثر کی بنیاد پر پارٹی کے موقف کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وزراء کے مطابق چیف منسٹر مرکز میں نریندر مودی حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کے سبب اسمبلی اور لوک سبھا کے بیک وقت انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ مودی حکومت کے خلاف ناراضگی کا اثر ٹی آر ایس کے امکانات پر پڑے گا۔ لہٰذا وہ کم از کم چار ماہ قبل اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کے حق میں ہے تاکہ مودی حکومت کی ناراضگی سے ٹی آر ایس کو بچایا جاسکے۔ وسط مدتی انتخابات کی صورت میں کے سی آر کو اپنی پسند کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں سہولت ہوگی۔ وہ کم از کم 30 موجودہ ارکان اسمبلی کو تبدیل کرنے کے حق میں ہیں۔ جمعہ کے دن طلب کردہ پارلیمانی پارٹی، لیجسلیچر پارٹی اور اسٹیٹ کمیٹی کے اجلاس میں کے سی آر کا موقف مزید واضح ہوگا۔