لندن ۔12 فبروری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) انسانی حقوق کیلئے سرگرم ایک بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ وسطی جمہوریہ افریقہ کے مغربی حصوں میں ’’نسل کشی‘‘ کے شکار مسلمان شہریوں کی حفاظت کیلئے امن مشن کے فوجیوں کی تیزی سے تعیناتی نہیں کی گئی۔ یہاں مبینہ طور پر عیسائی برادری مسلمانوں پر حملوں میں مصروف ہے۔چہارشنبہ کو جاری کردہ اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ رواں سال کے اوائل سے مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے اور اس کے بقول تشدد کی وجہ سے یہاں سے تقریباً تمام آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑی۔رپورٹ کے مطابق عیسائیوں پر مسلمان سیلیکا جنگجوؤں کی طرف سے کئے جانے والے حملے جوابی کارروائیوں کے طور پر کئے گئے جو عیسائی پر تشدد کا ’’کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ امن مشن میں شامل فرانسیسی اور افریقی فوجیوں نے علاقے میں بظاہر بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کو رونما ہونے سے روکا لیکن وہ سیلیکا اور اینٹی بالاکا فورسز کو غیر مسلح کرنے میں ناکام رہے۔ گروپ نے اس بات زور دیا کہ ان علاقوں میں امن مشن کے زیادہ سے زیادہ فوجیوں کو تعینات کیا جائے تاکہ ضرورت مند شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس ملک میں اقوام متحدہ کی طرف سے امن فوج کے پانچ ہزار افریقی اور سولہ سو فرانسیسی فوجی تعینات ہیں۔ یورپی یونین نے بھی پانچ سو فوجی بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے منگل کو یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ اس تعیناتی کو تیز کرے۔ انھوں نے فرانس اور دیگر ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی مزید فوجی بھیجیں۔