وزیر اعظم کا دورہ کشمیر

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ
وزیر اعظم کا دورہ کشمیر
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ریاست جموں و کشمیر کا دورہ کیا ۔ انہوں نے اس موقع پر وادی کشمیر کو جموں سے جوڑنے والی طویل سرنگ کا افتتاح بھی انجام دیا۔ اس سرنگ سے تقریبا ہر موسم میں بحفاظت سفر کو یقینی بنایا جائیگا اور اس سرنگ کے استعمال سے 30 میٹر کی مسافت سے بچا جاسکتا ہے ۔ 9 کیلومیٹر طویل چینانی ۔ نشری سرنگ کو مودی نے چیف منسٹر جموں و کشمیر اور گورنر کی موجودگی میں قوم کے نام معنون کیا ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ کشمیری نوجوانوں کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا تو وہ دہشت گردی کو منتخب کریں یا پھر سیاحت کو ۔ گذشتہ 40 سال سے دہشت گردی نے ریاست میں سوائے خون خرابے کے کچھ نہیں دیا ہے اور وہاں اموات ہوئی ہیں ۔ تباہی ہوئی ہے ۔ اگر اس دوران ریاست کے نوجوان سیاحت کو منتخب کرتے تو اس کے فوائد آج بہت شاندار ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کشمیری نوجوانوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ خون خرابے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔ ان کے سامنے سیاحت اور دہشت گردی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا راستہ ہے ۔ وزیر اعظم کو نوجوانوں کے سامنے دو راستے رکھنے کی بجائے ریاست کی ترقی کیلئے منصوبہ پیش کرنا چاہئے تھا ۔ انہیں اپنے اقدامات سے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جو مٹھی بھر افراد غیر قانونی راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ بھی اس راستہ کو ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ وزیر اعظم کو یہ بھی احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر میں جو صورتحال ہے وہ صرف زبانی وعدوں یا جمع خرچ سے بہتر ہونے والی نہیں ہے ۔ کشمیری عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو گذشتہ کئی دہوں سے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ذمہ دار بیرونی عناصر ہیں لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ داخلی حالات نے بھی اس میں اپنا رول ضرور ادا کیا ہے ۔ جب تک ان حالات کو بدلا نہیں جاتا اور کشمیریوں میں قومی دھارے میں شمولیت کا احساس پیدا نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہاں صورتحال کو بہتر بنانا آسان نہیں ہوگا ۔ حکومت کو خود بھی یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے بھی کشمیری نوجوانوں کو گلے لگانے کا راستہ موجود ہے ۔
کشمیری نوجوانوں کو پیالٹ گنوں سے نشانہ بنانے کی بجائے انہیں گلے لگانے کا جو راستہ حکومت کے سامنے موجود ہے اور اسے یہی راستہ منتخب کرنا چاہئے ۔ جب تک حکومت کھلے دل اور ذہن کے ساتھ بانہیں پھیلا کر کشمیری نوجوانوں کو گلے لگانے کیلئے تیار نہیں ہوتی اس وقت تک ان نوجوانوں کے استحصال کا شکار ہونے کا سلسلہ بھی جاری رہیگا۔ جو عناصر نوجوانوں کو ورغلا رہے ہیں یا انہیں پتھر اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں وہ بیرونی طاقتیں ہیں اور ان طاقتوں سے ہمیشہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان نوجوانوں کو غلط راستے سے سیدھی راہ پر لانے کیلئے حکومت کو بھی بہت کچھ کرنا ہوگا ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ داخلی طور پر جو حالات ریاست میں ہیں ان کو بہتر بنانا لازمی طور پر ریاستی اور مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ مرکزی حکومت ریاست کے حالات سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ وفاقی ڈھانچہ میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے علاوہ بھی مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے تو ریاست میں بی جے پی اقتدار میں شریک ہے ۔ اس اعتبار سے بھی یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ریاست کے حالات کو نوجوانوں کیلئے سازگار بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ ریاست کے عوام میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ مرکزی اور ریاستی دونوں ہی حکومتیں ان کے ساتھ ہیں۔ انہیں نشانہ بنانے کی بجائے ان میںترقی کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وہ راستہ ہوسکتا ہے جس کو اختیار کرتے ہوئے ریاست میں حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔
مرکزی حکومت کو ریاست کے عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا ہوگا کہ جس طرح سے کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے اسی طرح کشمیر کے عوام بھی اتنے ہی ہندوستانی ہیں جتنے باقی سارے ملک کے ہندوستانی ہیں۔ ملک کی ترقی میں کشمیر کے عوام کا بھی اتنا ہی حصہ ہونا چاہئے جتنا باقی اور ہندوستان کے عوام کا ہوگا ۔ وقفہ وقفہ سے ریاست کا مختصر سا دورہ کرتے ہوئے الفاظ کے الٹ پھیر کے ذریعہ تقاریر اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتے ۔ اس کیلئے ایک جامع منصوبہ بندی اور مبسوط حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب تک مسئلہ کی جڑوں تک نہ پہونچا جائے اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس وقت تک اس طرح کی تقاریر یا بیان بازیاں حالات کو بہتر بنانے میں ہرگز بھی معاون ثابت نہیں ہوسکتیں۔ کشمیر کے ساتھ کشمیری عوام کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے اور یہی راستہ ریاست میں حالات کو بہتر بنانے کا واحد راستہ ہے ۔