ذوقِ دیدار سلامت تھا ترے جلوؤں سے
اب نظر کیا ہے فقط تہمتِ بینائی ہے
وزیر اعظم کا دورہ چین
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ چین کی مصروفیات کا آغاز کردیا ہے ۔ وہاں انہوںنے چین کے صدر ژی جن پنگ سے ملاقات کی ۔ بعد میں دونوں قائدین کے مابین وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوئی ۔ اس بات چیت میں ایسا لگتا تھا کہ کوئی ایجنڈہ طئے نہیں تھا اور دونوں قائدین بیرونی حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور ایک دوسرے کے ممالک کے قدیم تعلقات پر تبصرہ کرنے اور ان کی اہمیت کویاد دلانے میں مصروف تھے ۔ جہاں تک چین کا سوال ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ چین نے عالمی منظر نامہ میں امریکہ اور خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کے منصوبوں کو بھانپتے ہوئے ہندوستان کی سمت دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ ہندوستان کے امریکہ کی جانب جھکاؤ سے واقف ہے اور امریکہ ۔ ہندوستان تعلقات کی گیرائی و گہرائی دونوں کو بھی سمجھتا ہے ۔ ایسے میں وہ چاہتا ہے کہ جنوبی ایشیا میںامریکہ کے اثر و رسوخ کو قدرے روکنے کی کوشش کرے ۔ ایسا کرتے ہوئے چین اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے ۔ تاہم جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے یہ دورہ کسی ایجنڈہ کے بغیر کیا ہے اور کسی خاص موضوع پر دونوں ملکوںکے مابین کوئی اہم یا با معنی بات چیت نہیں ہوسکی ہے ۔ ہندوستان اور چین کے مابین کئی مسائل ہیں جنہیں حل کرنا باقی ہے ۔ ڈوکلم کا مسئلہ ایسا ہے جس پر دونوںملکوںکے مابین ٹکراؤ کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی تھی ۔ دونوںملکوں کی افواج کا اجتماع ہوا تھا او ر وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بھی آنے لگی تھیں تاہم بعد میں سفارتی کوششوں کے ذریعہ اس مسئلہ کی یکسوئی کرلی گئی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ یکسوئی کوئی مستقل نہیں تھی اور یہ ایک عارضی راستہ تھا جو دونوںملکوں نے دریافت کیا تھا ۔ اس پر کوئی مستقل حل دریافت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چین کی ہٹ دھرمی کو روکا جاسکے ۔ ہندوستان اس ہٹ دھرمی کا مسلسل شکار ہوتا رہا ہے لیکن اس پر کوئی مستقل حل دریافت کرنے کی کوششیں پوری سنجیدگی کے ساتھ نہیں کی جاسکی ہیں۔ جو کوششیں ہوئیں وہ بے سود ثابت ہوئیں۔ چین نے حالانکہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے دوسرے پہلووں پر اچھی پیشرفت کی ہے لیکن وہ متنازعہ مسائل پر کوئی لچکدار موقف اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ اپنی ضد پر اٹل ہے ۔
اس کے علاوہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بھی استحکام پیداہوتا جا رہا ہے اور یہ تعلقات ہمہ جہتی ہوتے جا رہے ہیں۔ چین ‘ ہندوستان کے ساتھ روابط کو زیادہ اہمیت دینے اور ہندوستان کی علاقائی اہمیت اور طاقت کو سمجھنے کی بجائے پاکستان کی تائید و حمایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اب چین اور پاکستان کے مابین ایک معاشی راہداری بنانے پر کام شروع ہوچکا ہے ۔ یہ راہداری مقبوضہ کشمیر سے ہوتے ہوئے گذرتی ہے جو ہندوستان کا علاقہ ہے ۔ ایک متنازعہ علاقہ میں اس طرح کے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے سے چین کو گریز کرنا چاہئے تھا ۔ تاہم چین نے ایسا نہیں کیا اور وہ پاکستان کے ساتھ قربتیں بڑھانے میں مصروف ہے ۔ اس پر بھی ہندوستان نے کوئی خاص احتجاج درج نہیں کروایا ہے ۔ وزیر اعظم نریندرمودی اور صدر چین ژی جن پنگ کی بات چیت میں بھی ان مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے ۔ یقینی طور پر دونوں ممالک کے مابین دیگر مسائل بھی اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر بھی پیشرفت ہونی چاہئے لیکن ہندوستان کی علاقائی سالمیت کا مسئلہ سب سے اولین اہمیت اور ترجیح کا حامل ہے ۔ چاہے وہ ڈوکلم میں چین کی در اندازی ہو یا پھر مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ مل کر پراجیکٹ پر کام کرنا ہو ۔ ان دونوں مسائل پر وزیر اعظم کو صدر چین کے ساتھ تبادلہ خیال کرناچاہئے تھا تاکہ ان مسائل کا کوئی مستقل حل دریافت ہوسکے ۔ اگر ایسا ہوتا تو چین ۔ ہند تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوجاتا ۔
چین کے صدر نے وزیر اعظم ہند سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کیا اور خود نریندر مودی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ صدر چین آئندہ سال ہندوستان کا دورہ کریں۔ باہمی رابطے اور اس طرح کے دورے اچھی بات ہیں لیکن ان دوروں اور بات چیت میں اگر مسائل اور اہم موضوعات پر توجہ نہ دی جائے تو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ جب سرحدی تنازعات دھرے کے دھرے رہ جائیں تو پھر دوسرے شعبہ جات میں تعلقات کا استحکام اس سطح کا نہیںہوسکتا جتنی امید کی جاسکتی ہے ۔ اس صورتحال میںضرورت اس بات کی تھی کہ وزیر اعظم اس دورہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈوکلم تنازعہ ‘ ہماچل پردیش میںچین کی در اندازی اور مقبوضہ کشمیر میںجاری پراجیکٹ جیسے مسائل کو موضوع بحث بناتے ہوئے اور ہندوستان کے تحفظات اور اعتراضات سے واقف کرواتے لیکن انہوںنے ایسا نہیںکیا ۔ اس طرح وزیر اعظم کا یہ دورہ چین باہمی تنازعات کے معاملہ میں غیر کارگر رہا ہے ۔