وزیر اعظم نریندر مودی کے وعدے

ترے وعدہ پر جئے ہم نہ تو جان چھوٹ جاتی
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
وزیر اعظم نریندر مودی کے وعدے
انتخابات کے موسم میں ویسے تو سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے ان سے کئی وعدے کرتے ہیں۔ انہیں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ کئی امیدیں دلائی جاتی ہیں۔ ان کے حالات سدھارنے کے منصوبے پیش کئے جاتے ہیں اور ان سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ان ترقیاتی منصوبوں کو پورا کرنے کیلئے انہیں ووٹ دیں۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی بھی انتخابی موسم کا پوری طرح سے شکار ہیں۔ وہ عوام سے کئی طرح کے وعدے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اتر پردیش میں بی جے پی کو اقتدار ملنے پر کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اب وہ منی پور گئے ہیں جہاں گذشتہ تین معیادوں سے کانگریس کی حکومت ہے ۔ وزیر اعظم نے وہاں عوام سے وعدہ کیا کہ کانگریس پارٹی نے ریاس میں گذشتہ 15 سال میں جو کام نہیں کئے ہیں وہ صرف پندرہ مہینوں میں کرد کھائیں گے ۔ یہ الفاظ کا جادو ہے جو نریندر مودی ملک کے عوام پر مسلسل چلا رہے ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا انتخابات سے قبل بھی ملک کے عوام سے کہا تھا کہ کانگریس نے اس ملک پر 60 سال تک حکومت کی ہے انہیں صرف 60 مہینے دئے جائیں وہ ملک کی اور ملک کے عوام کی حالت بدل کر رکھ دینگے ۔ نریندر مودی کی وزارت عظمی کی معیاد کے 30 پورے ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عوام سے جتنی مہلت طلب کی تھی اس کی نصف گذر چکی ہے ۔ اب تک ملک کی حالت بدلنے کی سمت کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ انہوں نے ملک کے عوام کو سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ڈھائی سال میں ایک کروڑ روزگار بھی فراہم نہیں کرسکے ہیں۔ انہوں نے اقتدار ملنے کے 100 دن میں مہینگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کا الٹا ہی اثر ہوا ہے ۔ دالوں اور ترکاریوں کی قیمتیں تک عام آدمی کی پہونچ سے باہر چلی گئی ہے ۔ بین الاقوامی مارکٹ میں پٹرول کی قیمتوں میں گراوٹ کے باوجود اس کے فوائد ملک کے عوام تک پہونچانے کی بجائے حکومت نے اس پر سرچارچ اور اکسائز ڈیوٹی عائد کرتے ہوئے اپنے خزانے بھرنے پر توجہ دی ۔ ملک بھر میں کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہی ہے اور وہ قرض کے بوجھ کی وجہ سے مسلسل خود کشی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے اترپردیش میں اقتدار ملنے پر وہاں کے کسانوں کا قرض معاف کرنے کا اعلان تو کردیا لیکن کیا مہاراشٹرا ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ ‘ گوا میں بی جے پی کی حکومتیں نہیں ہیں ؟ ۔ کیا وہاں کسان خود کشی نہیں کر رہے ہیں۔ کیا وہاں کے کسانوں کی حالت خراب نہیں ہے ۔ پھر وہاں کے کسانوں سے وزیر اعظم کو ہمدردی کیوں نہیں ہے ۔ وہاں کے قرضہ جات معاف کیوںنہیں کروائے جاتے ؟ ۔ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم کو کسانوں کی حالت یا ان کے قرضہ جات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ صرف وعدوں کا جال بنتے ہوئے عوام کو اس میں باندھنا چاہتے ہیں اور انہیں ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اترپردیش میں مسلسل عوام کو بہلانے اور انہیں رجھانے کی کوششیں وہ کرتے جا رہے ہیں۔اب وہ منی پور میں بھی عوام کو رجھانے کی کوشش میں بھی جٹ گئے ہیں۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ جو حکومتیں قائم ہوتی ہیں ان کے کام کاج میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہے لیکن نریندر مودی حکومت شائد ہی اپنا کوئی وعدہ ایسا بتا پائے جس کو اس نے پورا کیا ہو۔ انہوں نے ملک کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہیںہاتھ میں جھاڑو تھمادی اور سوچھ بھارت کا نعرہ دے کر بہلانے کی کوشش کی ۔ عوام کے ہاتھ روزگار تو نہیں لگا بلکہ نوٹ بندی کی وجہ سے لاکھوں افراد کا روزگار چھین لیا گیا ۔ ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے بند گئے ہیں۔
وزیر اعظم کو کوئی نیا وعدہ کرنے سے پہلے اپنے سابقہ وعدوں کی تکمیل کا جائزہ لینا چاہئے تھا ۔ انہیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کے وعدہ پر اب تک کتنی پیشرفت ہوئی ہے ۔ اب تک کتنے کروڑ روزگار فراہم کئے گئے ہیں۔ مہنگائی کی صورتحال میں کس حد تک بہتری آئی ہے ۔ ملک کی معیشت کے استحکام کیلئے اب تک کیا کچھ کیا گیا ہے ۔ حکومت نے میک ان انڈیا کا نعرہ دیا تھا اس نعرہ سے اب تک ملک کو کتنی بیرونی سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے ۔ ساٹھ ماہ کی مہلت میں 30 ماہ کا وقفہ تو گذر گیا ہے اور حکومت کے پاس مابقی تیس ماہ کی معیاد کیلئے کیا کچھ منصوبے ہیں تاکہ اپنے وعدوں کو پورا کیا جاسکے ؟ ۔ ان سب باتوں کا جائزہ لئے بغیر وزیر اعظم مسلسل عوام سے وعدے کرتے جا رہے ہیں اور شائد ان کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہر شہری کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپئے جمع کروانے کے وعدہ کی طرح ان وعدوں کو بھی انتخابی جملہ قرار دے کر بچ جائیں گے لیکن ملک کے وزیر اعظم کیلئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا ۔