آپ کو جب علم تھا تو جانے کیوں خاموش تھے
بھولی بسری باتیں ساری آج کیوں یاد آگئیں
وزیراعظم کے خلاف انکشاف
حکومت اور عوام کے درمیان فاصلوں کو بڑھانے یا قربت پیدا کرنے کیلئے حکمرانی کے فرائض ادا کرنے والے افراد کے ہاتھوں ذمہ داری سونپی جاتی ہے مگر موجودہ حالات خاص کر یو پی اے حکومت اور اس کی قیادت کرنے والی شخصیتوں کے بارے میں جو انکشافات ہوئے ہیں وہ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھانے والے اور تشویشناک بھی ہیں۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کے سابق مشیر نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ منموہن سنگھ ایک کمزور وزیراعظم ہیں۔ حکومت کو سونیا گاندھی ریموٹ کنٹرول سے چلا رہی ہیں۔ اس انکشاف نے انتخابات کے عین موقع پر اپوزیشن پارٹیوں خاص کر بی جے پی اور اس کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار مودی کو گرماگرم موضوع ہاتھ لگا ہے اس لئے اب ہر اپوزیشن لیڈر حکومت پر نکتہ چینی کرکے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی قرار دینا شروع کیا ہے۔ مودی تو جلسہ عام میں عوام سے سوالات کررہے ہیں کہ آیا انہیں آئندہ پانچ سال کیلئے کوئی ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کمزور حکومت چاہئے یا ایک مضبوط اور ٹھوس فیصلے کرنے والی حکومت کو اقتدار ملنا چاہئے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ پر ان کے اپنے سابق بیورو کریٹس نے تنقید کی ہے تو پی ایم او کے اختیارات پر بھی کئی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔ منموہن سنگھ کو ایک کمزور وزیراعظم قرار دیئے جانے والی اس کتاب نے بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کی گذشتہ پانچ سال قبل 2009ء کے عام انتخابات میں کہی گئی بات کا اعادہ ہوتا ہے۔ اڈوانی اپنے ہر انتخابی جلسہ عام میں منموہن سنگھ کو نشانہ بناتے ہوئے ایک کمزور وزیراعظم کہتے تھے۔ سنجے بروا کی اس کتاب کی اشاعت اور اجرائی کے وقت اور تاریخ پر بھی گہری توجہ کی ضرورت ظاہر کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کے ہاتھوں کا کھلونا بننے والے سرکاری عہدیداروں کے تعلق سے سچائیوں اور بدگمانیوں کے ملے جلے تاثرات سامنے آسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہیکہ سنجے بروا نے اپنی یہ تنقیدی کتاب انہیں دوسری میعاد کیلئے پی ایم او کا مشیر مقرر نہ کرنے کے خلاف اظہار برہمی ہو یہ سوال بھی توجہ طلب ہے کہ سنجے بروا نے 2004ء سے 2008ء کے درمیان خدمات انجام دیتے ہوئے کبھی اس کمزور وزیراعظم والے ریمارک کی جانب توجہ نہیں دلائی۔ اس وقت وہ یہ سوال اٹھائے تو شاید پی ایم او کے اختیارات پر کسی دوسری سیاسی طاقت کے حاوی ہونے کا انکشا ہوتا۔ اس انکشاف کے پیچھے ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہیکہ ایک جمہوری ملک کے وزیراعظم کو کوئی فیصلہ کرنے یا عوامی خدمت والا قدم اٹھانے سے قبل صدر کانگریس سونیا گاندھی سے اجازت حاصل کرنی پڑتی۔ ورنہ حکومت کے از خود جاری کردہ فیصلوں کو راہول گاندھی کی جانب سے مسترد کردیئے جانے کا امکان ہوتا۔ ملک بھر میں گذشتہ 10 سال سے ایس ایم ایس پھیلانے والوں کو بھی سنجے بروا کی کتاب سے تصدیق ہوتی ہیکہ وزیراعظم ایک ربر اسٹامپ ہے۔ ایک جمہوریت ملک کی منتخب حکومت اور اس کے وزیراعظم کے تعلق سے اگر انگلیاں اٹھتی ہیں تو یہ پوری جمہوریت کو غیرمستحکم کرنے کی افسوسناک کوشش کہی جاسکتی ہے۔ کانگریس ہو یا کوئی اور پارٹی ہندوستان میں سیاست کے تعلق سے اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کرے تو یہ بدبختانہ بات ہوگی۔ سیاست بنیادی طور پر اقتدار کا ایک بے رحم کھیل ہے جس میں داؤ پیچ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ داؤ پیچ کے اس اسلحہ خانے میں اب نریندر مودی کی شکل میں ومارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے لایا جارہا ہے تو جھوٹ، منافقت اور دوغلے پن جیسے ہتھیار خاصے کارگر ثابت ہوں گے۔ یو پی اے مرحلہ اول کو جس طریقہ سے چلایا گیا تھا مرحلہ دوم بھی اس طرز پر ختم ہورہا ہے تو یہ دستورہند اور جمہوری اقتدار کو سنگین پامال کرنے والی حرکتوں کے مترادف ہوگی۔ ملک کے وزیراعظم کو کسی کے آگے سرخم کرنا نہیں ہوتا ہے مگر سنجے بروا نے منموہن سنگھ کے تعلق سے کمزور وزیراعظم ہونے کا انکشاف کرکے شاید اپوزیشن کے اشاروں پر عمل کرنے یا اپوزیشن کو موقع فراہم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے تو یہ بڑی افسوسناک تبدیلی ہے جو ہندوستان کی روایات ،تہذیبی و اخلاقی اقدار کے خلاف بھی ہے۔اگر ان انکشافات کو آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر یو پی اے اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کو رسواء کرنے کے مقصد سے مفادات حاصلہ کے تحت عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے تو یہ اور بھی زیادہ افسوسناک بن جاتا ہے کیونکہ کسی اعلی ظرف اعلی عہدیدار سے اس قسم کی توقع ہر گرز نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ سبکدوش ہونے والے ملک کے اعلی ترین عہدیدار وزیر اعظم کے خلاف عین انتخابات سے قبل ایسے انکشافات کرے گا۔