وزیراعظم مودی کی خاموشی

پارلیمنٹ میں تمام اپوزیشن پارٹیوں نے تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر وزیراعظم سے بیان دینے کا مطالبہ کیا اور وہ یہ مطالبہ آخر تک کرتے ہی رہے لیکن وزیراعظم نے بیان دے کر اپوزیشن کو مطمئن نہیں کیا ۔ سیاسی جماعتیں ایک مہذب معاشرے کے خواب کی تعمیر کے لئے جدوجہد کرتی ہیں ۔ لیکن بی جے پی اور اس کی اقتدار پسند طاقتیں مہذب معاشرے میں رخنہ ڈالنے کی مختلف عنوانات سے کوششیں کر رہی ہیں ‘اس پر پارلیمنٹ جیسے اہم عوامی امیدوں ‘ توقعات کے مرکز کو بھی بی جے پی قیادت نے غیر اہم بنا دیا ہے تو پھر مہذب معاشرہ کے لئے کوشاں سیاسی پارٹیوں کے لئے لمحہ فکر ہے پارلیمنٹ میں وزیراعظم کا بیان جمہوری ہند کی روایت کا مظہر ہوتا ہے ۔ تبدیلی مذہب یا فرقہ وارانہ واقعات کے سلسلہ میں اپوزیشن ملک کے وزیراعظم سے جواب طلب کر رہی تھی ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سرمائی سیشن کے تمام اجلاسوں سے خاموشی اختیار کرکے دانستہ طور پر تبدیلی مذہب تنازعہ کو اپنے اردگرد کے ہندوتوا طاقتوں کے لئے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے ۔ مودی صرف بی جے پی کے وزیراعظم نہیں بلکہ سارے ملک کے عوام کے وزیراعظم ہیں ۔ ایوان میں ارکان کا یہی احساس تھا کہ مودی کو دستور ہند کے نگہبان اور جمہوریت کے علمبردار کے طور پر کردار سازی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ ان کی معنی خیز خاموشی نے کئی شبہات کو جنم لیا ہے ۔ سوال یہ ہے کیا یہ خاموشی برہمی کی وجہ سے یا وہ جان کر بھی انجان بننے کی کوشش کر رہے تھے ۔

بظاہر تو یہ رپورٹ دینے کا تاثر دیاگیا کہ وزیراعظم مودی ‘ وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے شرپسند عناصر سے مایوس ہیں ۔ کیونکہ یہ عناصر مودی کے انتخابی نعرہ ’’سب کا وکاس ‘‘ گھر واپسی کے تماشہ کی نذر کر دیا ہے ۔ نریندر مودی کی خاموشی کے لئے لوگوں نے یہ تھیوری بھی تیار کی کہ بی جے پی کے اہم قائدین نے مودی کو آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کی حرکتوں کے خلاف احتجاج کر کے استعفی کی دھمکی دینی چاہئے ۔ انہوں نے اس مشورہ کے مطابق دھمکی بھی دی تھی اس کے باوجود وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے کان پر جون تک نہیں رینگی کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کوبھی انگوٹھا دکھایا گیا ۔ مودی ایک طرف سنگھ پریوار کو دھمکی دیتے رہے دوسری طرف پارلیمنٹ میں معنی خیز خاموشی اختیار کرتے رہے۔ اس سے واضح ہوا کہ وہ برسر عام سنگھ پریوار میں کوئی دراڑ پیدا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ آیا آخر آر ایس ایس اوروی ایچ پی ہی نے انہیں انتخابی کامیابی میں مین پاور فراہم کرکے آشرواد دیا تھا ۔ اس لئے وہ ایک طرح کی تھیوری کو میڈیا میں گشت کراتے رہے کہ انہوں نے سنگھ پریوار سے تبدیل مذہب کے مسئلہ پر ناراضگی ظاہر کی ہے ۔

پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کو ضائع کرنے میں جب حکومت کا سربراہ اہم رول ادا کرتا ہے تو اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ اس طرح توجہ مثبت کے بجائے منفی پر مرکوز رہتی ہے اور یہی عوام میں بھی پختہ ہوتا جاتا ہے ۔ اپوزیشن نے آخر تک تبدیلی مذہب مسئلہ پر حکومت کے گھنٹے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔ وزیراعظم مودی نے پارلیمنٹ سیشن کے اختتام پر تمام ارکان کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ملک کی ترقی اور معاشی بہتری کے لئے کام کریں جبکہ ان کی پارٹی کی مجازی تنظیمیں ایسی حرکتیں کر رہی ہیں کہ ملک کو معاشی ترقی کی سمت لے جانے میں مشکل ہوگئی ۔ پارلیمنٹ کے باہر سیاسی تقاریر میں اپنی کامیابیوں سے زیادہ مخالف کی ناکامیوں یا خامیوں کا تذکرہ کرنے والے حکمراں طبقہ کے لئے لوگوں کو پارلیمنٹ سیشن میں اپوزیشن کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوسکی ۔ اس موضوع پر وزیراعظم کی خاموشی کا خاص کر نوٹ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوگا کہ مودی نے اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لایا ہے ۔ اپوزیشن بھی اپنے وجود کو منوانے سے راہ فرار اختیار کرتی ہے تو اس حرکت کو مہذب معاشرہ میں معیوب تصور کیا جاتا ہے ۔ اس طرح بی جے پی اور اس کی ذمہ دار قیادت از خود مسائل کی اپنی دھرتی چھوڑ کر دوسرے مقام پر سرسبز شاداب ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔ اس سے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کرنے والے خطرات منڈلاتے ہیں ۔