اعلی عہدہ کے لئے لازم ہیں نیکی کی صفات
پیشرو سے درس لو جمہوریت کا آج تم
وزیراعظم منموہن سنگھ
یو پی اے حکومت کی وداعی کی تیاری ہوچکی ہے۔ منموہن سنگھ نے بحیثیت وزیراعظم 10 سال تک ایک خاموش ورکر کی طرح کام کیا۔ انہوں نے خود کو لیڈر بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ان کے دور وزارت میں جتنی خرابیاں اور دھاندلیاں ہوئیں اگرچیکہ اس میں ان کا راست کوئی تعلق نہ ہولیکن ملک کی تاریخ ان کے دور کو ایک رشوت ستانی، بدعنوانی اور کئی خرابیوں کے دور سے تعبیر کرے گی اگرچیکہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ ان کے لئے ایک موقع سے ملنے والا عہدہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے اختیارات کا کبھی بیجا استعمال نہیں کیا۔ یو پی اے حکومت کو خاموشی کے ساتھ اپنی میعاد پوری کرلینے کا ایک دیانتدار عمل پورا کیا ہے۔ ان کی وداعی کے موقع پر اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے لیڈر نے کھلے دل سے ستائش کی ہیکہ منموہن سنگھ نے وزیرفینانس کی حیثیت سے ملک کی بہتر سے بہتر خدمت انجام دی لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے ان کا رول کسی کے اشاروں تک محدود تھا۔ 1991ء میں معاشی اصلاحات کا عمل شروع کرنے کا ٹھوس قدم اٹھانے والے منموہن سنگھ کو اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی بھرپور حمایت حاصل تھی مگر وزیراعظم کی حیثیت سے منموہن سنگھ کو اپنی پارٹی کی قیادت کی بھرپور حمایت حاصل نہ ہوسکی جس کے نتیجہ میں ایک ماہر معاشیات کی خوبیاں اور اصلاحات کے عمل کے بہتر نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ 81 سالہ منموہن سنگھ جاریہ انتخابات میں یو پی اے کو تیسرے مرحلہ کی حکمرانی کا موقع ملنے پر وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دینا نہیں چاہتے تھے لیکن اب انتخابی نتائج نے یو پی اے کو ہی اقتدار سے دور رکھنے کا اشارہ دیدیا ہے
تو مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تشکیل پانے کا امکان قوی ہوگیا ہے۔ منموہن سنگھ ملک کے 13 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے سبکدوش ہوں گے مگر راجیہ سبھا رکن کی حیثیت سے ان کی میعاد برقرار ہے۔ وہ 1999ء سے مسلسل راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ گذشتہ سال ہی 6 سال کی میعاد کیلئے ان کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ آئندہ پانچ سال تک راجیہ سبھا میں ایک اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں منموہن سنگھ کو اپنی سینیاریٹی اور تجربہ کو روبہ عمل لانے کا کامیاب مظاہرہ کرنا ہوگا۔ گذشتہ 10 سال کے دوران اپوزیشن پارٹی نے ان کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک کمزور وزیراعظم قرار دیا تھا لیکن منموہن سنگھ نے اس کی تردید بھی کی تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ منموہن سنگھ نے 10 سال کے دوران ملک کی معاشی پالیسی کو مضبوط بنانے کی کوشش کی لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔ ان کی خارجی پالیسیوں پر بھی تنقیدیں ہوتی رہی ہیں۔ شرح پیداوار میں اضافہ کا دعویٰ تو کیا گیا مگر افراط زر پر قابو پانے کی کوشش رائیگاں ثابت ہوئی۔ ہند۔
امریکی سیول نیوکلیئر معاہدہ کو قطعیت دے کر کئی ایک اصلاحاتی اقدامات بھی کئے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود عوام کی رائے یو پی اے کے حق میں نہیں رہی۔ منموہن سنگھ کے بارے میں ان کے ناقدین یہ تو اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے قول سے زیادہ عمل کیا ہے۔ خاموش رہ کر ہندوستان کی عالمی سطح پر ایک مضبوط پہچان کو مزید تقویت دی ہے اگر وہ کانگریس قیادت سونیا گاندھی کے تحت کام نہ کرتے تو ان کی صلاحیتیں مزید ابھر کر آتیں اور ملک کو ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر نصیب ہوتا۔ اپنی کابینہ کے بدعنوان وزراء کی انہوں نے مدافعت کی تو یہ ان کی سیاسی مجبوری تھی اگر وہ بدعنوان وزراء کی مدافعت نہ کرتے تو ان کے وزارت عظمیٰ کے عہدہ کی تعظیم ہوتی مگر سونیا گاندھی کے تحت کام کرنے سے وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر رہے۔ بہرحال سونیا گاندھی نے ہی انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا۔ اپوزیشن انہیں لیڈر تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہے کیونکہ جب کبھی وہ ملک کی پالیسی پر تقریر کرتے تو وہ لیڈر کی طرح مخاطب نہ ہوتے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک خاص وجہ ان کے اختیارات محدود تھے وہ بڑے فیصلہ کرنے کا ازخود اختیار نہیں رکھتے تھے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں لیڈر کو بااختیار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس ملک کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ انہیں کوئی با اختیار لیڈر نصیب نہیں ہوا۔ اب این ڈی اے کے دور کا آغآز ہونے والا ہے تو نریندر مودی بھی آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے کام کریں گے۔ انفرادی طور پر اپنی شخصیت ابھارنے کی کوشش کرنے والے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی بے اختیارات کی حامل بن جائے تو اس کے کئی منفی و مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ مودی پر گرفت رکھنا اس لئے بھی ضروری ہیکہ وہ کھلے پن یا آزادانہ طور پر من مانی نہ کرسکیں۔ این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کو ملک کے جلیل القدر عہدہ وزارت عظمیٰ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہیکہ وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو اس ملک کے اصولوں، دستور، جمہوریت، سیکولرازم اور دیانتداری کا سبق پڑھائیں۔