بجھا جارہا ہے اسی سوچ میں دل
قریب ان کے جانے کے دن آرہے ہیں
وجئے ملیا کے خلاف کارروائی
مرکزی حکومت ایسا لگتا ہے کہ ملک کے عوام کو شراب کے تاجر وجئے ملیا کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہونے کا ثبوت دینا چاہتی ہے ۔ وجئے ملیا ہندوستان میںکئی بینکوں کو ہزاروں کروڑ روپئے واجب الادا ہیں۔ جب وہ یہ قرض ادا نہ کرسکے تو بیرون ملک فرار ہوگئے ۔ وجئے ملیا جب ملک سے عملا فرار ہوئے تو انہیں ائرپورٹ پر روکا جاسکتا تھا ۔ وہ کوئی غیر معروف شخص نہیں ہیں اور ان کے خلاف ائرپورٹس پر نوٹس جاری تھی لیکن اس کی نوعیت کو بدل دیا گیا جس کے نتیجہ میں ملیا فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ ابتداء میں یہ تک پتہ نہیں تھا کہ وجئے ملیا کہاں فرار ہوئے ہیں اور ان کا ٹھکانہ کہاں ہے ۔ تاہم جب انہوں نے لندن سے مراسلت کا آغاز کیا تو اس کا پتہ چلا ۔ ملک میں اس تعلق سے کئی طرح کی چہ میگوئیاں چل رہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کے ہی کسی کارندہ نے وجئے ملیا کو ان کے خلاف ہونے والی امکانی کارروائی کی اطلاع دی جس کے نتیجہ میں وہ انتہائی عجلت میں ملک سے فرار ہوگئے ۔ ان کو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے نوٹسیں جاری کی گئیں لیکن انہوں نے ان کی تعمیل کرنے سے انکار کرتے ہوئے ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی اور اپنی وطن واپسی سے معذوری کا اظہار کیا ۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی تین نوٹسوں کے بعد ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا گیا اور اب حکومت ایسا لگتا ہے کہ اپنی ساکھ بچانے کیلئے حرکت میں آنے کا تاثر دے رہی ہے ۔ پہلے وجئے ملیا کا پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا اور اب برطانیہ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس سے کہا گیا ہے کہ ملیا کو حکومت ہند کے حوالے کیا جائے ۔ حکومت کو اس بات کا علم تھا کہ وجئے ملیا 9,400 کروڑ روپئے ہندوستانی بینکوں کو واجب الادا ہیں۔ یہ کوھی معمولی رقم نہیں ہے اور اس پر حکومت کسی طرح کی تن آسانی سے کام نہیں لے سکتی ۔ ملک میں بے شمار مسائل ایسے ہیں جنکو حل کرنے کیلئے زر کثیر کی ضرورت ہے ۔ عوام کو بنیادی سہولتیں پہونچانے کے مقصد سے یہ رقم خرچ کی جاسکتی تھی لیکن یہ شراب کے کاروباری کو عملا تحفتا دی گئی اورا یسا لگتا ہے کہ اس سارے معاملہ میں نہ صرف حقائق کو پوشیدہ رکھا گیا ہے بلکہ بینکوں کے ساتھ دھوکہ بھی کیا گیا ہے ۔
شائد اسی دھوکہ دہی اور غلط کاری کا نتیجہ کہ بینکوں کو قرض واپس حاصل کرنے میں عملا کئی دشواریاں پیش آ رہی ہیں اور وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے مجبور ہیں۔ حکومت کو اس مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوںکی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس معاملہ کا سابقہ آئی پی ایل کمشنر للت مودی کے مسئلہ سے تقابل کیا جا رہا ہے ۔ للت مودی بھی ہندوستان میں مطلوب ہیں اور وہ برطانیہ میں یا دوسرے ملکوں میں پرتعیش زندگی گذار رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھی واپس لانے میں حکومت زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ۔ اسی لئے ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے اپنے وعدوں سے عوام میں امیدیںپیدا کی تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کالا دھن واپس لائیں گے اور ہر ہندوستانی شہری کے کھاتہ میں 10 تا 15 لاکھ روپئے مفت میں جمع کروائیں گے ۔ عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانے کے بعد اقتدار تو حاصل کرلیا گیا لیکن عوام کو کوئی راحت پہونچانے کی بجائے الٹا عوام کی رقومات کو کارپوریٹ اداروں کو لوٹنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے اور ان کارپوریٹ اداروں کے سربراہوں کو ملک سے فرار ہونے کا بھی پورا پورا موقع دیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو اس معاملہ میں اپنے رویہ اور عمل میںسنجیدگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب تک تو محض کاغذی کارروائی ہو رہی ہے ۔ کوئی ٹھوس کارروائی کرنے کی بجائے سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ مناسب طرز عمل نہیں ہے ۔
وجئے ملیا نے جتنی رقم بینکوں سے حاصل کی ہے اسے معمولی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی انہیں اس کثیر رقم کے ساتھ فرار ہوکر دوسرے ملک میں پرتعیش زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنے تمام تر سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے نہ صرف وجئے ملیا کو ہندوستان واپس لائے بلکہ ان سے یہ رقم واپس حاصل کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں۔ وجئے ملیا ہندوستان اور بیرونی ممالک میں ہزاروں کروڑ روپئے کے اثاثہ جات رکھتے ہیں۔ ان اثاثہ جات کے ذریعہ بھی قرض کی رقم واپس لی جاسکتی ہے اور اس کیلئے حکومت کو ایک جامع ایکشن پلان کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ قرض نا دہندگان کو یہ تاثر ضرور دیا جانا چاہئے کہ وہ بینکوں سے قرض حاصل کرنے کے بعد بچ نہیں سکتے اور انہیں یہ رقم کسی بھی حال میں واپس کرنی ہی ہوگی ۔ جب تک یہ پیام نہیں دیا جاتا اس وقت تک بینکوں کو دھوکہ دینے کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ۔