والدین کی اطاعت لازم اور عاق کا شرعی حکم

سوال: کیا فرماتے ہیںعلمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی نابالغ لڑکا جان بوجھ کر والدین کی نافرمانی کرے ‘ ان کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کرے ‘ جھوٹ بولتا رہے تو ایسے لڑکے کیلئے شریعت میں کیا حکم ہے ‘ کن وجوہات پر اولاد کو عاق کرسکتے ہیں اور کن اسباب کی وجہ سے ان کو وراثت سے محروم کیا جاتا ہے؟
جواب: عقوق یعنی والدین کی نافرمانی شریعت میں شرک کے بعد سب سے بڑا گنا ہ ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے : کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں ؟۔ ہم نے کہا : کیوں نہیں ۔ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تین ہیں (۱) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (۲) والدین کی نافرمانی کرنا (۳) جھوٹی بات ‘ جھوٹی گواہی دینا الخ (بخاری)
والدین کی اطاعت و فرمانبرداری ‘خدمت و حسن سلوک جہاد سے بھی افضل ہے کیونکہ جہاد فرض کفایہ ہے اور والدین کی اطاعت و خدمت فرض عین ہے ۔ جہاد اس کے علاوہ دوسرے بھی انجام دے سکتے ہیں لیکن والدین کی خدمت اسی پر فرض ہے ۔ کوئی اس کا نائب و قائم مقام نہیں ہوسکتا ہے ۔ اسی بناء پر جب ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا :میں نے غزوہ روم میں شرکت کی نذر کی ہے لیکن والدین مجھے منع کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا : والدین کی اطاعت کرو ‘کیونکہ روم کی جنگ کیلئے تمہارے علاوہ دوسرے بھی جاسکتے ہیں ۔( المھذب فی فقہ الامام الشافعی ۔ ۲؍۲۳۰ ) بحوالہ الموسوعۃ الفقھیۃ ۔
و نیز ایک حدیث میں وارد ہے کہ آپ نے فرمایا : ہر گناہ کو اللہ تعالیٰ قیات تک موخر فرمائے گا سوائے والدین کی نافرمانی کے کیونکہ اللہ تعالیٰ والدین کے نافرمان کو موت سے پہلے زندگی میں سزا دے گا ۔
’’ کل الذنوب یؤخر اللہ فیھا ما شاء الی یوم القیامۃ الا عقوق الوالدین فان اللہ یعجلہ لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الممات‘‘ (الحاکم۴؍۱۵۶)
و نیز والدین کی نافرمانی اور ایذا رسانی کی پاداش میں تعزیری طور پر اسے قید و بند کی سزا دی جائے گی اور حاکم اس کو نافرمانی و ایذا رسانی سے روکنے کیلئے بطور زجر و توبیخ کوئی بھی مناسب سزا دے سکتا ہے ۔
’’اما جزاء ہ فھو من باب التعزیر ‘ و یکون تعزیرہ بالحبس علی حسب الذنب والھفوۃ او الضرب او التانیب بالکلام العنیف او بغیر ذلک مما بہ ینجزر و یرتدع ۔( رد المحتار جلد۳ ص ۱۷۷) ۔
والدین کی نافرمانی دینا و آخرت میں خسران کا باعث ہے تاہم نافرمان اولاد اپنے مرحوم والدین کے متروکہ سے محروم نہیں ہوتے کیونکہ ایک مرتبہ نسب ثابت ہوجانے کے بعد اس کی نفی نہیں ہوسکتی ہے ۔
’’ لو قال لصبی ھذا الولد منی ثم قال لیس منی لا یصح نفیہ لانہ بعد الاقرار لا ینتفی بالنفی در مختار بر حاشیہ رد المحتار جلد۴ ص۴۹۶۔ اور عقوق ‘ موانع وراثت میں سے نہیں یعنی والدین کی نافرمانی ان اسباب میں سے نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی وارثت سے محروم ہوتا ہے ۔
اور اگر کوئی شخص ساری جائیداد اپنے کسی لڑکے کو بلا عذر محروم کر کے دوسرے لڑکوں کو ہبہ کر دے اور ان کے قبضہ و تصرف میں بھی دیدے تو دوسرے تو مالک ہوجائیں گے لیکن باپ گنہگار ہوگا ۔ البتہ کسی کو کسی وجہ سے زیادہ دے رہا ہے لیکن اس کا مقصد دوسرے کو نقصان پہنچانا نہیں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ’’ لا بأس بتفضل بعض الاولاد فی المحبۃ لانھا عمل القلب و کذا فی العطایا ان لم یقصد بہ الاضرار و ان قصدہ سوی بینھم یعطی البنت کالابن عند الثانی و علیہ الفتوی ’ و لو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز و أثم ( در مختار کتاب الھبۃ جلد۴ص ۵۷۲ )
فقط واﷲتعالیٰ اعلم