وادی کشمیر میں ہلاکتیں

چونک اُٹھتی ہیں ہر اک آہٹ پہ مجرم کی طرح
ڈوبتی نبضوں کو جیسے اب بھی کوئی آس ہے
وادی کشمیر میں ہلاکتیں
کشمیر کے حالات تکلیف دہ ، افسوسناک اور سنگین صورتحال سے دوچار ہوتے جارہے ہیں ۔ جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے سرنونالی گاؤں میں مسلح تصادم کے مقام پر سیکوریٹی فورس کی فائرنگ میں 7 شہریوں اور 3 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے خلاف عوام کا غم و غصہ بڑھنا فطری امر ہے ۔ کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ وادی میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے نونہالوں ، نوجوانوں کو ہلاک کیا جارہا ہے ۔ اس پاگل پن کے تشدد کے لیے حکومت ہند ہی ذمہ دار ہے ۔ اب حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ضرورت ہے ۔ وادی میں شہری علاقوں میں فوج کی کارروائیوں سے ہونے والی اموات کے خلاف وادی کشمیر اور خطہ جموں کے مختلف حصوں میں اتوار کے روز مکمل ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس ہڑتال کے باعث پوری وادی کشمیر فوجی زیادتیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھی ۔ کشمیر میں ان حالات کو روکنے کے لیے ہر وقت کسی بڑے حادثہ یا تشدد کے بعد صرف بیانات دے کر بہتر کام کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے لیکن ہر گذرتے دن کے بعد وادی ہمیشہ سے زیادہ نازک صورتحال سے دوچار ہوئی ہے ۔ کشمیری قائدین کے پاس بھی جب کبھی تشدد ، اموات اور خون ریزی کے واقعات ہوتے ہیں ان کے خلاف احتجاج کرنے اور ہڑتال کا اعلان کرنے کے سواء کوئی متبادل احتجاجی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔ کشمیر کے 3 اہم قائدین سید علی شاہ گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یسین ملک نے شہری ہلاکتوں کے خلاف 3 روزہ ماتمی ہڑتال کا اعلان کیا ۔ یہ ہڑتال کی اپیل گویا کشمیری عوام کی جانب سے حکومت کے رویہ کے خلاف احتجاج درج کرانے کی جمہوری کوشش ہوتی ہے مگر اس طرح ہڑتالوں سے اب تک وادی کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ۔ وادی کے عوام امن چاہتے ہیں اور انہیں عام زندگی جینے کا حق حاصل ہے لہذا عوام کو ان کی زندگیاں جینے کی اجازت دی جانی چاہئے ۔ ان پر سیکوریٹی کا حصار تنگ کر کے انہیں پریشان کرنا کسی بھی جمہوری حکمرانی میں ناقابل قبول بات ہوتی ہے ۔ کشمیر کی بعض تنظیموں نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ شہری علاقوں میں فوجی آپریشن نہیں کروانا چاہئے کیوں کہ اس سے عوام کا چین و سکون برباد ہوتا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کے لیے سنجیدہ ہونے کے بجائے حکومت اس مسئلہ کو زندہ رکھ کر اپنا سیاسی مقصد حاصل کرتے آرہی ہے ۔ وادی کشمیر کے تمام دعویداروں کے ساتھ موثر مذاکرات اور بامعنی رویہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔ امن کی بحالی پر دھیان دینے کے بجائے اگر وادی میں بے قصور ، بے گناہ عوام کو ہلاک کرنے والے آپریشن کروائے جاتے ہیں تو یہ مقامی عوام کے لیے نہایت ہی المناک واقعہ ہوتا ہے جب تک وادی میں بلا وجہ شہریوں کی جان لینے والے فوجی آفیسروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع نہیں ہوتی یہاں حملے اور فائرنگ میں شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ اسی لیے انسانی حقوق کمیشن ہو یا عالمی ادارہ کشمیری عوام کی مصائب زدہ زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ وادی کے اہم تجارتی اداروں کا تاثر ہے کہ وادی کشمیر میں جب تک فوج کو حاصل اختیارات کو کم نہیں کیا جائے گا ، خون ریزی ختم نہیں ہوگی ۔ یہاں مسلح افواج خصوصی اختیارات قانون ( اے ایف ایس پی اے ) پر عمل ہوتا ہے ۔ اس طرح کے اختیارات کا بیجا استعمال کر کے فوج اپنی کاروائیوں میں شدت پیدا کرکے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتی ۔ اس طرح کے واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے خود کو غم زدہ ظاہر کرنے والے قائدین کو بھی یہ محسوس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برت کر بے گناہ افراد کی اموات کا سبب بن رہے ہیں ۔ اگر حکومت بے قصور شہریوں کو ہلاک کرنے والی طاقتوں کو سزا دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے اموات کا سلسلہ ختم ہوگا ۔ لیکن وادی کشمیر میں خون ریزی کا لائسنس دیا جاچکا ہے ۔ جس کی وجہ سے انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں ۔ برصغیر ہند کے یہ حالات عالمی برادری کی توجہ کے طلب گار ہیں ۔ امن و امان کے لیے عالمی برادری کو بھی آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ عالمی برادری اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرسکتی ہے مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ وادی کشمیر کو داخلی اٹوٹ حصہ قرار دے کر حکومت اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے راہ فرار اختیار کرتی ہے ۔ ہر چند دن بعد ہڑتال ، تشدد ، فائرنگ کے باعث وادی کی تجارتی سرگرمیاں اور غریب عوام کے روزگار متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسے حالات کو روکنے کا کوئی نظام دکھائی نہیں دیتا اور بے گناہ کشمیریوں کی نسل کشی جیسی کارروائیوں کے خلاف بھی انصاف ہونے کی توقع ختم کردی جارہی ہے ۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے جمہوری اور دستوری فرائض کو دیانتداری کے ساتھ پورا کرے ۔۔