نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
نیپال کی تعمیر جدید کا عزم
نیپال میں آئے تباہ کن اور ہلاکت خیز زلزلہ کو دو ہفتوں کا وقت گذر چکا ہے ۔ یہاں ابھی تک تباہ حالی کا منظر ہے ۔ زلزلہ کے ما بعد جھٹکے بھی ہنوز محسوس کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں وہاں کے عوام ابھی تک خوف و ہراس کے عالم میں کھلے میدانوں میں عارضی خیموں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ یہ لوگ حکومت نیپال اور دوسرے ممالک و بین الاقوامی برادری سے ملنے والی امداد پر گذار ا کر رہے ہیں۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جو بنیادی ضروریات کی تکمیل میں تک مسائل کا شکار ہیں۔ بے شمار افراد کو غذائیں نہیں مل پا رہی ہیں۔ ہزاروں ایسے ہیں جنہیں ادویات کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ حکومت نیپال کی جانب سے اپنے طور پر ہر ممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ عوام کو مشکل اور بحران کے اس وقت میں ممکنہ حد تک امداد فراہم کی جاسکے ۔ نیپال میں بیرونی ممالک کے راحت و بچاؤ مشن ختم ہوگئے ہیں اور تعمیر جدید کا ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ درپیش ہے ۔ اس میں بھی نیپال اور نیپال کے عوام کو بین الاقوامی برادری کی امداد کی ضرورت درپیش ہوگی ۔ وزیر اعظم نیپال مسٹر سشیل کوئرالا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جو عوامی اور خانگی عمارتیں زلزلہ کی وجہ سے زمین بوس ہوگئی ہیں ان کی اندرون دو سال تعمیر کو یقینی بنایا جائیگا ۔ خاص طور پر اسکولس ‘ کالجس ‘ نگہداشت صحت کے مراکز اور دوسری عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کرنے اور جو معمولی طور پر متاثر ہوئی ہیں ان کی مرمت وغیرہ کا کام اس مدت کے اندر مکمل کرلیا جائیگا ۔ انہوں نے بتایا کہ جو مذہبی ‘ آثار قدیمہ کی اور کلچرل اہمیت کی عمارتیں تباہ ہوئی ہیں انہیں اندرون پانچ سال دوبارہ تعمیر کیا جائیگا ۔ حکومت کا یہ عزم قابل ستائش ہے کیونکہ جو تباہی ہوئی ہے وہ انتہائی غیر معمولی ہے ۔ یہ تباہی سبھی کے قیاس سے بالاتر ہے اور لمحوں میں جو تباہی آئی ہے اس سے نمٹنے کیلئے ایک طویل وقت ‘ ایک صبر آزما جدوجہد ‘ بے تکان کوششوں اور غیر معمولی سرمایہ اور بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے ۔ نیپال اپنے محدود وسائل اور ذرائع سے اس ساری جدوجہد کو تن تنہا پایہ تکمیل تک نہیں پہونچا سکتا ۔ اس کا خود نیپال کی حکومت کو بھی اعتراف ہے ۔ اس کیلئے نیپال کے پڑوسی ممالک ‘ نیپالی عوام اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
صرف عمارتوں کی تعمیر حالات سے نمٹنے کیلئے کافی نہیں ہے ۔ نیپال کے عوام جو صدمہ اور حالات سے گذرے ہیں اس سے انہیں ابھارنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کی زندگیاں چند لمحوں میں تباہی کا شکار ہوگئی ہیں۔ بے شمار افراد ایسے ہیں جو اپنی ساری زندگی کی کمائی اور مال و دولت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہزاروں افراد اپنے لواحقین اور چہیتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ آج بھی لاکھوں افراد کھلے میدانوں میں عارضی خیموں اورٹینٹس میں زندگیاں گذار رہے ہیں۔ ان میں اب بھی زلزلوں کا خوف موجود ہے ۔ جو معمولی شدت کے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں انہوں نے بھی عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے ۔ لیکن یہ سب کچھ قدرتی قہر ہے اور اس کے آگے انسان بے بس ہے ۔ جو کچھ تباہی ہوئی ہے وہ اتنی نہیںہے کہ معمولی سی کوشش اور جدوجہد کے ذریعہ اس کے اثرات کو ختم کیا جائے ۔ اس کیلئے ایک طویل جدوجہد کی اور بھاری وسائل و سرمایہ کی ضرورت ہوگی ۔ نہ صرف نیپال کے پڑوسی ممالک بلکہ ساری بین الاقوامی برادری کو اور بین الاقوامی اداروں کو نیپال کی مد د کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ انسانیت کو جو سنگین مسائل یہاں درپیش ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہر گوشے سے نیپال کی مدد کی ضرورت ہے ۔ حکومت نیپال نے دو سال کے اندر تعمیر جدید کا جو عزم ظاہر کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ لیکن حکومت کو صرف عمارتوں کی تعمیر جدید یا ان کی مرمت کے ساتھ ساتھ عوام میں اعتماد بحال کرنے پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جب تک عوام میں اعتماد بحال نہیں ہوگا حقیقی معنوں میں حالات معمول پر نہیں آسکتے ۔
نیپال کے عوام نے اس انتہائی ہلاکت خیز اور مشکل کے وقت میں جس حوصلے کا اظہار کیا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے ۔ انہوں نے مشکل اور پریشانی کے لمحات بڑے صبر سے جھیلے ہیں ۔ ایسے میں صرف عمارتوں کی تعمیر جدید سے کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔ عوام کو راحت پہونچانے اور ان کی باز آبادکاری پربھی پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ فوری طور پر عوام کو ادویات اور غذائی اجناس کی جو ضروریات درپیش ہیں اس سلسلہ میں بین الاقوامی برادری نے فراخدلی کے ساتھ مد د کی ہے لیکن ابھی اور بھی بہت کچھ کیا جانا ہے ۔ ہندوستان ہو یا دوسری پڑوسی ممالک ہوں یا پھر بین الاقوامی برادری ہو سبھی کو چاہئے کہ نیپال کی تعمیر جدید اور وہاں کے عوام کی با زآبادکاری اور ان کی زندگیوں کو معمول پر لانے کیلئے ہر ممکنہ تعاون اور مدد کریں۔