نیپال میں 2.8 ملین افراد ہنوز راحت کاری اور امداد کے منتظر

کھٹمنڈو ۔ 25 جون (سیاست ڈاٹ کام) اب جبکہ نیپال میں آئے جان لیوا زلزلہ کے ہولناک واقعہ کو دو ماہ کا طویل عرصہ گذر چکا ہے لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہیکہ اب بھی 2.8 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں انسانی بنیادوں پر امداد کی شدید ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں یہ بات کہی گئی جہاں اس کے ہیومانٹیرین کوآرڈینیٹر جیمی میک گولڈرک نے کہا کہ عارضی پناہ گاہیں، غذا اور ساتھ ہی ساتھ روزمرہ کے اخراجات چلانے کیلئے روزگار، بنیادی طبی سہولیات اور حفظان صحت ایسے شعبے ہیں جہاں توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ زلزلے میں بچ گئے ان کیلئے صورتحال ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق ہوگئی کیونکہ موسم ناسازگار ہوچکا ہے، کبھی شدید سردی اور کبھی شدید گرمی اور وقتاً فوقتاً بارش۔ اس صورتحال میں ان افراد کیلئے اپنا سر چھپانا مشکل ہوگیا ہے جن کے سر پر کوئی چھت ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اسی سلسلہ میں کھٹمنڈو میں بین الاقوامی ڈونرس کانفرنس ہونے والی ہے، جس کے انعقاد سے قبل مسٹر میک گولڈرک نے کہا کہ ناسازگار موسم ہی ہمارا اصل دشمن ہے اور ایسے موسم میں ہزارہا افراد کی بقاء ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ راحت کاری اس وقت دیانتدار کہلائے گی جب وہ بروقت سربراہ کی جائے اور انصاف کا تقاضہ پورا کیا جائے یعنی ہر مستحق کو اس کا حق ملے۔ امداد کی تقسیم شناخت انداز میں ہونی چاہئے۔ آج نیپال کوتعمیرنو کی ضرورت ہے جہاں 530,000 مکانات تباہ ہوچکے ہیں اور ہزارہا افراد عارضی خیموں اور کیمپوں اور پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ حیرت انگیز طور پر 1,17,000 افراد ایسے ہیں جو بالکل کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ نیپال کی معیشت ویسے بھی کمزور تصور کی جاتی ہے اور رہی سہی کسر زلزلہ کی تباہ کاریوں نے پوری کردی۔