نیوکلیئر مذاکرات کیلئے ظریف۔ کیری ملاقات

جنیوا۔ 22؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ وزیر خارجہ جان کیری آج جنیوا پہنچ گئے تاکہ وزیر خارجہ ایران محمد جواد ظریف کے ساتھ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مزید بات چیت کرسکیں۔ قبل ازیں انھوں نے انتباہ دیا تھا کہ قطعی آخری مہلت قریب آرہی ہے، لیکن اب بھی ’نمایاں جھول‘ برقرار ہے۔ عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ طئے کرنے کے لئے کوشاں ہیں جس سے ایران کو نیوکلیئر بم کی تیاری سے روکا جاسکے۔ اس کے معاوضہ میں ایران پر بین الاقوامی معاشی تحدیدات میں نرمی پیدا کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جان کیری وزیر خارجہ ایران محمد جواد ظریف سے دو دن طویل بات چیت کریں گے۔ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کے ہتھیاروں کی تیاری کے لئے ہونے کی تردید کرتا آرہا ہے۔ وزیر خارجہ امریکہ نے کل انتباہ دیا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان اختلافات ہنوز موجود ہیں اور کافی فاصلہ طئے کرنا باقی ہے۔ وہ لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان اور جرمنی، ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے سلسلہ میں متحد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کا پروگرام آئندہ پُرامن مقاصد کے لئے ہوگا۔ وزیر خارجہ برطانیہ فلپ ہیمنڈ سے لندن میں بات چیت کے دوران بھی کیری نے یہی بات کہی تھی۔

وزیر خارجہ ایران جمعہ کے دن سے امریکی سفارت کاروں سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ اپنی کوششوں میں اضافہ کا اظہار کرتے ہوئے وزیر توانائی امریکہ ارنسٹ مونیز بذریعہ طیارہ برف پوش جنیوا پہنچ چکے ہیں۔ یہ مذاکرات میں ان کی پہلی بار شرکت ہوگی۔ ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم کے ڈائریکٹر علی اکبر صالحی بھی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ دونوں عہدیداروں اور ان کے وفود نے کل پانچ گھنٹوں تک بات چیت کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مونیز اور صالحی کی ملاقات اُمید افزا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ عنقریب معاہدے کو قطعیت دے دی جائے گی، لیکن جان کیری نے اس ملاقات کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں شرکت کا مطلب یہ نہیں کہ معاہدہ قطعیت کے قریب ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس ملاقات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں پاتے۔ علی اکبر صالحی کل وزیر خارجہ جواد ظریف اور حسین فریدوں کے ساتھ جو صدر ایران حسن روحانی کے بھائی ہیں، بات چیت میں مدد دینے کے لئے جنیوا پہنچ گئے۔ قطعی آخری مہلت 30 جون ہے۔ اگر یہ تاریخ گزر جائے تو مغربی ممالک ایران کے خلاف کارروائی کی دھمکی دیتے ہیں۔