نیتن یاہو کے متنازعہ دورۂ امریکہ پر اوباما ناراض

واشنگٹن۔ 25 فروری (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کے ایک سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ وائیٹ ہاؤز کی سرپرستی و منظوری کے بغیر اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی طرف سے امریکی کانگریس سے خطاب کی دعوت کی قبولیت اسرائیل ۔ امریکہ تعلقات کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کی مشیر نے یہ سخت ترین تبصرہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب ایوان نمائندگان میں ری پبلیکن اسپیکر جان بوہنر نے صدر بارک اوباما سے پہلے مشاورت کے بغیر پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم کو قانون سازوں سے خطاب کی دعوت دی ہے۔ اوباما اور ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین نے کہا ہے کہ 3 مارچ کو واشنگٹن میں نیتن یاہو کے خطاب میں شرکت نہیں کریں گے۔ صدر اوباما نے کہا کہ ایسے کسی پروگرام میں ان کی شرکت جانبداری تصور کی جائے گی کیونکہ اسرائیل میں 17 مارچ کو عام انتخابات ہوں گے۔ ڈیموکریٹس نے یہ بھی کہا کہ کانگریس نے نیتن یاہو کے خطاب کی صورت میں ایران کے ساتھ جاری نیوکلیئر مذاکرات بھی متاثر ہوسکتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس خطاب کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اس دوران نیتن یاہو نے جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان سنیٹ کی ایک دعوت مسترد کردیا اور جواب میں کہا کہ ایسی کوئی ملاقات جانبداری متصور کی جائے گی۔ نیتن یاہو کے اس اقدام نے وائیٹ ہاؤز اور ڈیموکریٹک پارٹی کو مزید برہم کردیا ہے۔ مزید برآں انہوں نے مشترک کانگریس کے اجلاس میں ری پبلیکن پارٹی کے ارکان سے خطاب کی دعوت قبول کرنی ہے اور ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر اظہار خیال سے اتفاق کرلیا ہے۔ ڈیموکریٹک سینیٹرس ڈک ڈربن اور ڈیان فینٹائن نے نیتن یاہو کو اپنے دورہ واشنگٹن کے موقع پر بند کمرہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی تھی، لیکن انہوں نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور دورہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوششوں پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ نیتن یاہو نے لکھا ہے کہ ’’مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ امریکی کانگریس سے میرے مشترکہ خطاب کو سیاسی اور جانبداری پر مبنی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘