نیا شوق ! بچوں کی جان کو خطرہ ! والدین لا علم یا غافل ؟

چھوٹی سی غلطی جان لیوا ہوسکتی ہے ، ملک پیٹ اور او آر آر پر ہورہی ہیں ایسی حرکات

ابوایمل
حیدرآباد ۔ 13 ۔ ستمبر : ایک ایسے وقت جب شہر میں سڑک حادثات روز کا معمول بن چکے ہیں ایسے میں تیز رفتاری سے بائک دوڑانا ، ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا ، تیز رفتاری میں بائک کو آڑھے ترچھے انداز میں دوڑانا جس کو نوجوان طبقہ Bend مارنا کہتے ہیں ، ایسے المناک سڑک حادثے میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔(سلسلہ صفحہ 14 پر)
اب تو لاری اور آر ٹی سی بس میں بھی کوئی فرق باقی نہیں رہا ۔ جس طرح لاریاں دندناتی سڑکوں سے گذرتی ہیں ، آر ٹی سی بسیں بھی اسی انداز میں گذرتی نظر آرہی ہیں ۔ مگر ان تمام تر حادثاتی پس منظر کے باوجود آج ہم نے ملک پیٹ برج پر ایک 18 سالہ نوجوان کو اپنی بائک ایک پہئیے پر چلاتے ہوئے دیکھا تو ہم حیرت میں پڑ گئے کیوں کہ مصروف ترین اس برج پر جس طرح یہ نوجوان خطرناک اسٹنٹ کا مظاہرہ کررہا تھا اسے دیکھ کر ہر کوئی خوفزدہ ہو کر گاڑی روک کر اس کا مشاہدہ کررہا تھا ۔ میں نے فورا اپنی گاڑی روک کر اس سے بات کرنے اور اس طرح خطرناک انداز سے گاڑی چلانے کی وجہ جاننا چاہا تو اس نے بتایا کہ یہ اس کا شوق ہے اور یہ کہ وہ اس طرح کا اسٹنٹ کرنے والا تنہا نہیں بلکہ اس کے دوستوں کی ایک گینگ ہے جو بے خوف و خطر اس طرح ایک پہیے پر بائک چلا سکتی ہے میرے اس سوال پر کہ کیا ان کے والدین ان کے اس ’ کارنامے ‘ سے واقف ہیں ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ان کے والد نے ہی تو انہیں گاڑی دلائی ہے انہیں سب معلوم تاہم انہیں کوئی اعتراض نہیں ، میں نے پھر کہا اس طرح خطرناک انداز میں بائک چلانے سے جان بھی تو جاسکتی ہے ، اس نے کہا ہاں ! بالکل جاسکتی مگر وہ اس سے نہیں ڈرتے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اکثر اس طرح کے نوجوان آپس میں طرح طرح کی شرطیں باندھ کر موٹر سیکل اسٹنٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ یہ شرط لگاتے ہیں کہ بائک کا اگلا پہیہ اٹھا کر کون کتنی دور تک فاصلہ طئے کرسکتا ہے ؟ اس کے علاوہ اس طرح کے نوجوان گروپ کی شکل میں اپنی اپنی بائک کو تیز رفتاری سے گذارتے ہوئے زگ زاگ اپنی گاڑیاں کراس کرتے ہیں جس کو دیکھ کر بعض سلجھے ہوئے افراد وحشت زدہ ہو کر اپنی گاڑیاں روکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے ایسے پُرخطر اور جان لیوا شوق کا ذمہ دار کون ہیں ؟ اگر ان کے اس شوق کی وجہ سے کسی کی جان جاتی ہے تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا ۔ بہر حال والدین اور سرپرستوں کو ہمارا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ پہلے تو اپنی اولاد کو بائک دلانے سے گریز کریں کیوں کہ ہر کالج کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہے ۔ علاوہ ازیں شہر میں آر ٹی سی بس بھی شہر کے کونے کونے تک چلائی جاتی ہیں تاہم اگر کسی وجہ انہیں گاڑی دلانا ضروری ہوجائے تو خفیہ طریقے سے ان پر نظر رکھیں ۔ ان کے ملنے جلنے والے اور ان دوستوں کے طور طریقے پر دھیان دیں ۔ یہ معلوم کریں کہ ان کے بچے جب کالج سے گھر لوٹتے ہیں تو ان کے کیا مشاغل ہوتے ہیں ۔ آیا وہ کسی ایسی حرکت کے مرتکب تو نہیں ہورہے ہیں جس سے ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہورہا ہوا ۔ ہمیں یقین ہے کہ والدین جب ان کی حرکتوں کا مشاہدہ کریں گے تو اپنے بچوں کو بائک کے قریب بھی جانے نہیں دیں گے ۔ کیوں کہ اگر ان کی غیر شعوری کی وجہ سے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اپنی جان تو گنوائیں گے ہی ساتھ میں اپنے والدین بھائی بہن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایسا زخم دے جاتے ہیں جو تا عمر نہیں بھر سکتا ۔ ہماری والدین سے گذارش ہے کہ خدارا اس معاملے میں بالکل لاپرواہی نہ برتیں بلکہ اپنے بچوں کی نگرانی کرتے ہوئے انہیں اپنی حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں جس سے نہ صرف ان کی بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں ۔۔
abuaimalazad@gmail.com