واشنگٹن ۔ 27 جون (سیاست ڈاٹ کام) گذشتہ20 سالوں سے امریکی حکومت کی جانب سے یہ روایت رہی ہے کہ وائٹ ہاؤس میں افطار پارٹی کی جاتی ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق دو دہائیوں میں یہ پہلی بار ہے جب صدر ٹرمپ نے یہ روایت توڑ دی ہے اور نہ تو افطار پارٹی بلوائی اور نہ ہی عید پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔اگرچہ ان کی جانب سے سنیچر کو مسلمانوں کو عید کی مبارکباد دی گئی تھی۔بی بی سی کے نامہ نگار براجیش اوپادھیائے کے مطابق ‘عید کے موقع پر وزارتِ خارجہ کی جانب سے رات کے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں صحافیوں کو بھی بلوایا جاتا تھا تاہم اس بار ایسا نہیں ہوا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی افطار یا عید ڈنر کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس بار وائٹ ہاؤس کے پریس ریلیز میں اس کا کوئی تذلکرہ نہیں تھا۔’سی این این کے مطابق صدر ٹرمپ نے رمصان میں ڈنر کا اہتمام نہ کروا کے گذشتہ تین حکومتوں کی روایت کو توڑ دیا ہے۔واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھامس جیفرسن کے مطابق اس روایت کو سنہ 1805 میں امریکہ کے تیسرے صدر نے شروع کیا تھا۔ تاہم وایٹ ہاؤس میں افطار پارٹی کا آغاز صدر بل کلنٹن نے سنہ 1996 میں کیا تھا جسے جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما نے برقرار رکھا۔اس عشائیے میں امریکہ میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی کے اہم افراد کو مدعو کیا جاتا تھا اس کے علاوہ کانگرس کے اراکین اور مسلم دنیا کیسفیر بھی مدعو ہوتے تھیسنہ 1999 کے بعد سے اب تک امریکی وزارتِ خارجہ بھی عید پارٹی یا افطار پارٹی کی دعوت دیتی آرہی ہے۔صدر ٹرمپ اپنی الیکشن مہم کے آغاز سے ہی اسلام کے بارے میں بہت سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنے عہد کے آغاز سے ہی بہت سے مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی۔تاہم بعد میں امریکی صدر نے اپنیبارے میں موجود اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی اور سب سے پہلے سرکاری دورے پر سعودی عرب گئے۔