سیدہ خجستہ نصرت
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی ذمہ داریوں کو پورا کرسکتا ہو، اسے شادی کرلینی چاہئے، اس سے نگاہ قابو میں رہتی ہے اور آدمی پاک دامن ہو جاتا ہے۔ غیر شادی شدہ مرد اور عورت شیطان کے بہکاوے میں رہتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو زیادہ عرصہ تک ازدواجی زندگی سے محروم رکھنے سے معاشرے میں بڑی گھناؤنی اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
دورِ حاضر میں شادی (نکاح) کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ فضاء میں ہر سٗو جہیز کی وبا پھیلی ہوئی ہے، جہیز اور جوڑے گھوڑے کو بنیاد بناکر رشتے طے کئے جا رہے ہیں۔ لڑکے والوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ لڑکی تعلیم یافتہ، خوبصورت اور کم عمر ہو، جب کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اتنی ہی زیادہ عمر بھی درکار ہوتی ہے۔ آج والدین اپنی لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم اس لئے دِلوا رہے ہیں، تاکہ وہ آگے چل کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں، لیکن تعلیم مکمل کرنے کے چکر میں لڑکیوں کی اچھی خاصی عمر ہو جاتی ہے۔ لڑکیاں جب اپنی تعلیم مکمل کرلیتی ہیں تو ان کے رشتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اب وہ لڑکیاں اپنی آنکھوں میں خوابوں کو سجائے اس گھڑی (یعنی شادی) کا انتظار کرتی ہیں۔ اگر غریب گھرانے کی لڑکیاں ہیں تو وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد شادی کا نہیں، بلکہ اپنے مستقبل کا خواب دیکھتی ہیں، کیونکہ غریب گھرانے کی لڑکیوں کے والدین بچیوں کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جہیز اور جوڑے گھوڑے کی رقم یا پُرتکلف فرمائشی کھانوں وغیرہ کا انتظام نہیں کرسکتے، اسی لئے ایسے گھرانوں کی طرف کوئی نظر اُٹھاکر دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
نکاح کرنا سنت ہے، لیکن آج ہم سنت تو برائے نام ادا کر رہے ہیں، جب کہ غیر شرعی رسوم و رواج میں زیادہ ملوث ہیں۔ پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں، عزت و ناموس اور بھرم کی خاطر سود جیسی لعنت میں مبتلا ہوکر نمود و نمائش کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔
نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے: (۱) مال و دولت (۲) خاندانی شرافت (۳) حسن و جمال اور (۴) دینداری۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم دیندار عورت حاصل کرو‘‘۔ کیونکہ دنیا کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے، جو اپنے شوہر کو ہر حال میں خوش رکھتی ہے۔ شوہر اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ مسکراکر اس کا استقبال کرتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں اپنی عفت و عصمت، اس کے بچوں اور مال کی حفاظت کرتی ہے، یعنی نیک بیوی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
نکاح کے لئے اگر پہلی صورت (مال و دولت) کو ترجیح دی جائے تو ہم مسلمان یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ یہ دنیا چند روزہ ہے، جب کہ خاندانی شرافت کو دیکھنے کے لئے اس لئے کہا گیا ہے کہ اگر عورت اچھے اخلاق کی نہ ہو تو زندگی میں کئی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ اگر ہم صرف حسن و جمال دیکھ کر شادی کرتے ہیں تو یہ حسن ڈھلتے سورج کی طرح ہے، یعنی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی خوبصورتی جاتی رہتی ہے۔ اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم دین کی بنیاد پر نکاح کرو، جس سے تمہاری زندگی خوشگوار اور کامیاب ہوگی‘‘۔
آج ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو نظرانداز کر رہے ہیں، کیونکہ ہم کسی لڑکی کو اسی وقت پسند کرتے ہیں، جب کہ ہمیں منہ مانگی رقم اور حسن و جمال دونوں ایک ساتھ حاصل ہوں، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدگی کے بارے میں کبھی ہم سوچنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ہماری بے راہ روی نے مسلم معاشرہ میں اتنی خرابی پیدا کردی ہے کہ آج کئی مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار ہو رہی ہیں۔ یعنی مرضی کی شادی، خودکشی اور مذہب بیزاری، ان تمام حالات کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔
جہیز کی وبا کو ختم کرنے کے لئے نوجوانوں کو سامنے آنا چاہئے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ایک دن انھیں اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا۔ غیر شرعی رسوم و رواج کو ہر ممکن ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ ہمارے معاشرہ کی غریب لڑکیوں کے خواب پورے ہوسکیں۔