نوٹ بندی سے ہندوستانی معیشت کو شدید دھکہ ، چھوٹے تاجر متاثر

انوارالعلوم کالج میں سمینار ، جناب مظہر الدین فاروقی پرنسپل اور دیگر طلباء کا خطاب
حیدرآباد ۔ 29 ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : وزیراعظم ہند نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کی شام اچانک ملک بھر میں 500 اور 1000 نوٹوں کے چلن پر پابندی کے فیصلے اور اعلان کے بعد صبح عوام کی بڑی تعداد بینکوں میں قطاریں باندھے کھڑی اپنے ہاں موجود رقم بینکس میں ڈالنے اور نکالنے پر مجبور ہوگئی ۔ جیسے جیسے دن گذرتے گئے یہ مرحلہ بڑا سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا تھا لیکن عوام نے امن و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے قطاروں میں کھڑے اپنی جانوں کو گنوانا و ضائع کرنا گوارہ کرلیا ۔ نوٹ بندی کے اس اثر نے ہندوستانی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا اور بالخصوص چھوٹے کاروبار ، روزانہ مزدوری کرنے والے لوگ اس کی زد میں آگئے ۔ جن جن ملکوں میں حکومتوں نے نوٹ بندی کے اس طریقہ کار کو اختیار کیا تو دیکھا گیا کہ یہ عمل طویل مدتی رہا ہے ۔ لیکن وزیراعظم کو اس نوٹ بندی سے قبل انہیں کہنا پڑا کہ ملک میں اچھے دن آنے والے ہیں اور جب نوٹ بندی کا آغاز ہوا تو عوام نے مظاہرے کرتے ہوئے مضحکہ خیز انداز میں کہا تھا کہ ’ کیا مودی جی یہی اچھے دن ہیں ‘ وزیراعظم نے کہا کہ نوٹ بندی کے ذریعہ اس ملک کو کالے دھن سے پاک کیا جارہا ہے ۔ اس نوٹ بندی نے ایک غریب انسان سے لے کر تعلیم یافتہ کو بھی پریشان کردیا ۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے انوارالعلوم ڈگری کالج شعبہ معاشیات کے زیر اہتمام سمینار سے کیا ۔ اس سمینار میں انوارالعلوم جونیر و ڈگری کالج ، گورنمنٹ نامپلی جونیر و ڈگری کا اور شہر کے دوسرے کالجس کے طلباء وطالبات نے شرکت کی ۔ جناب مظہر الدین فاروقی پرنسپل نے خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس طرح کے سمینار طلباء میں شعور کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے ۔ جناب اسماعیل علی خاں صدر نشین ریگولرٹی الیکٹریسٹی بورڈ تلنگانہ نے کہا کہ وزیراعظم ہند کا یہ اقدام کہ ہزار اور دو ہزار کے نوٹوں پر پابندی لگائی جائے دراصل کالا دھن کو دور کرتے ہوئے عوام کے معاشی موقف کو مستحکم کرنا تھا لیکن اس کے ذریعہ ایک معمولی سے فرد کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کا نظام اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب کہ اس کا مالی ڈھانچہ مستحکم ہو ۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ نوٹ بندی سے قبل اس پر نظر ثانی کرتے ، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اس نوٹ بندی کے ذریعہ مغربی ممالک کی طرز پر یہاں کی معیشت کو پروان چڑھانے اور تبدیل کرنے کے خواہاں تھے ۔ اس لیے انہوں نے کرنسی تنسیخ کے ذریعہ ایک نئے نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی بھی معاملہ کی منصوبہ بندی نہ ہو اور اس کے متعلق شعور بیدار نہ کیا جائے تو ایسے ہی حیران کن نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مسٹر وائی سرینواس چارٹر اکاونٹنٹ نے کہا کہ نوٹ بندی نے عوام کو مسلسل تین ماہ پریشانی میں مبتلا کردیا جس سے چھوٹی صنعتیں متاثر ہوئیں ۔ انہوں نے پروجکٹر کی مدد سے نوٹ بندی کے دوران اعداد و شمار میں گراوٹ آئی اس کو تفصیل سے بتایا ۔ پروفیسر ایس سدھاکر ( عثمانیہ یونیورسٹی ) نے کہا کہ اس ملک میں نوٹ بندی کا فیصلہ جو ایک مشاہدہ تھا جسے نریندر مودی نے کیا تاکہ جو مالیہ بڑے بڑے مالداروں کے ہاں پھنسا ہوا ہے اسے باہر نکالا جائے ۔ اور وہیں کالا دھن کا بھی خاتمہ کیا جاسکے ۔ پروفیسر حبیب اللہ نے کہا کہ نوٹ بندی کا یہ عمل دراصل ایک ڈکٹیٹر شپ کا دوسرا روپ ہے ۔ جسے اس ملک میں رائج کیا گیا اس نوٹ بندی کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ لوگو صرف مجھے 50 دن دے دو ، انہوں نے کہا کہ اس ملک میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو روزانہ کی کمائی کرتے ہیں اور انہیں کام چھوڑ کر بینکوں کی قطاروں میں ٹھہرنا پڑا ، اس نوٹ بندی کے ذریعہ وہ بینک کے تمام تر نظام کو ڈیجیٹل میں ترتیب دینا چاہتے ہیں ۔ جمہوری قدروں کو قائم رکھنے والے اس ملک میں نوٹ بندی کے اس عمل سے عوام نے بڑا صبر آزما مظاہرہ کیا اور جو جعلی کرنسی اور اس کا دھندہ کرنے والے بے نقاب ہوئے اور جو نوٹ جعلی تھے اسے جلایا گیا یا پانی میں بہا دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا موقف اس نوٹ بندی کے ذریعہ یہ بھی ہے کہ ملک میں تشدد پر ضرب لگائی جائے ۔ جناب اکبر علی خاں سابق وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نے کہا کہ نوٹ بندی کے اس اعلان کے بعد جو مصائب ہوئے ہیں اسے بھلایا نہیں جاسکتا ، بالخصوص چھوٹے کاروبار اور صنعتیں چلانے والے بڑے پریشان ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مرارجی دیسائی کے دور اقتدار میں بھی اس ملک کو نوٹ بندی کے اس عمل سے گذرنا پڑا ۔ جناب احمد بیگ ، محمد عبدالرزاق اور دوسروں نے بھی مخاطب کیا ۔۔