نواز شریف کی امن مساعی

اے کاش کہ نیت بھی ہو اخلاص سے بھرپور
پھر ان کے لبوں پر ہیں محبت کے ترانے
نواز شریف کی امن مساعی
وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے برصغیر میں امن کے لئے اپنے ملک کی جانب سے اہم کردار ادا کرنے سے متعلق ایک وضاحت ہندوستان کے تعلق سے بھی کی کہ ان کی حکومت اپنے پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہتی ہے ۔ نواز شریف نے ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر وسیع تر اظہارخیال کیا ۔ اپنے حالیہ دورۂ برطانیہ سے واپسی کے بعد مختلف موقعوں پر برصغیر کی سلامتی اور امن و امان کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کیا خاص کر ہندوستان میں جاریہ انتخابات کے سلسلہ میں پاکستان کی حکومت اور وہاں کی سیاسی سوچ کی حامل شخصیتوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے انتخابی نتائج برصغیر کے امن کے لئے اہم ہیں ۔ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے برسراقتدار آنے کے امکان اور نریندر مودی کے وزیراعظم مقرر ہونے کی قیاس آرائیوں پر نواز شریف کا سیاسی ردعمل واضح ہے کہ واجپائی حکومت میں بھی ان کی حکومت نے دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو ایک نئی سمت اور ایک نئی بلندی عطا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ سابق وزیراعظم واجپائی کا بس کے ذریعہ لاہور کا سفر اور نواز شریف سے ملاقات ایک تاریخی باب بن گیا تھا ۔ بعد ازاں نواز شریف کی حکومت کی بیدخلی ، فوجی بغاوت کے بعد کارگل جنگ نے دونوں ملکوں کی دوستی کی مضبوط بنیاد کو کمزور کردیا ۔ حالیہ برسوں میں اگرچیکہ دونوں جانب تعلقات کی سطح کبھی تلخ کبھی نرم رہی ہے مگر دونوں ملک ایک دوسرے کے تئیں اتنے قریب نہیں ہے جس کی فی زمانہ ضرورت ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو اپنے ملک کے داخلی حالات اور پڑوسی ملک خاص کر افغانستان کی صورتحال سے نمٹنے میں سخت محنت کرنی ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے روابط کو کبھی خوشگوار موڑ پر لایا جاتا ہے تو کبھی کشیدگی کی چٹان پر چڑھایا جاتا ہے ، اس سے کسی بھی ملک کا فائدہ نہیں ہوگا ۔ پاکستان کو ان دنوں سب سے اہم مسئلہ داخلی سلامتی اور افغان سے متصل سرحدوں پر توجہ دینی ہے ۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے بعد نومنتخب حکومت اور اس کی پالیسیاں پاکستان کے لئے غور طلب ہوں گی جبکہ پاکستان طالبان تحریک کے ساتھ حکومت پاکستان کی جنگ بندی کے مذاکرات کو بھی قطعی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے دوسرے دور کی حکمرانی میں نواز شریف کو کئی ایک جمہوری طرز کے مسائل اور ماضی کے مارشل لا کی وجہ سے پیدا ہوئی خرابیوں کو دور کرنے جیسے معاملوں سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پاکستان میں اندرون ملک سکیورٹی کا مسئلہ نازک رخ اختیار کرتا جارہا ہے ۔ داخلی طورپر مسائل سے دوچار پاکستان کو پڑوسی ملکوں خاص کر ہندوستان سے مضبوط دوستی اور خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے سے مدد مل سکتی ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کیلئے پاکستان کی انٹلی جنس ایجنسیاں اور افواج کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔ دہشت گردوں سے بات چیت کو ترجیح دینے کا مقصد مزید خون بہائے بغیر امن کا مقصد حاصل کیا جانا ہے تو مذاکرات کے عمل کو بھروسہ مند طریقہ سے پورا کرلینے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ پاکستان میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کی حامی طاقتیں امن کے لئے خطرہ بن رہی ہیں۔ ان سے مصالحت کے لئے کوشاں حکومت کو بعض طاقتوں کی جانب سے رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے ۔ کوئی بھی حکومت امن مذاکرات میں یا شدت پسندی اور انتہاپسندی کو کچلنے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ ازخود کوئی ٹھوس اور سخت قدم اٹھائے ۔ پاکستان میں وہاں کی فوج کو ایک منظم ترین اور سب سے مستحکم اور شفاف ادارہ مانا جاتا ہے مگر اس کی موجودگی کے باوجود پاکستانی عوام کا خون بہایا جاتا ہے ، دہشت گرد حملے ہوتے ہیں تو فوج کی صلاحیتوں پر یا حکومت کی کوتاہیوں کے بارے میں مختلف خیال جنم لیتے ہیں ۔ پاکستان میں گزشتہ سال مئی میں انتخابات ہوئے تھے ۔ عوام نے جمہوری حکومت کے حق میں ووٹ دے کر نواز شریف کی پارٹی کو کامیاب بنایا تھا ۔ اس ایک سال کے دوران پاکستان کے اندرونی صورتحال میں خاص کر سلامتی نکتہ نظر سے کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی ۔ اب ہندوستان میں جاریہ ماہ مئی میں انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت تشکیل پانے والی ہے۔ دونوں جانب کی حکومتیں تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے مثبت اور خوشگوار بیانات کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی سمت قدم اُٹھاتی ہے تو یہ خوش آئند بات ہوگی ۔ نواز شریف نے اپنے ملک کے طالبان سے امن مذاکرات کی کوشش کی ہے تو ان سے توقع کی جاتی ہے کہ امن کی آشا کو کامیاب بنانے کے لئے ہندوستان کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے میں کامیاب ہوں گے ۔ جہاں تک ہندوستان میں نئی حکومت اور اس کی پالیسیوں کا تعلق ہے یہ نتائج کے بعد ہی منتخب ہونے والی پارٹی یا مخلوط حکومت کے لائحہ عمل کو دیکھنے پر ہی معلوم ہوگا ۔