زندگی لائی ہے کس موڑ پہ دیوانے کو
وہ چلے آئے ہیں خود راستہ سمجھانے کو
نریندر مودی کی انتخابی مہم
نریندر مودی 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں اپنی پارٹی بی جے پی کی زبردست انتخابی مہم چلاتے ہوئے کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور وہ ملک کے اقتدار اعلی پر فائز ہیں۔ وزارت عظمی کی کرسی سنبھالنے کے بعد ان کے انداز اور تیور میں قدرے تبدیلی محسوس کی گئی تھی اور وہ انتخابی مہم کے انداز کو ترک کرنے کے بعد سرکاری کام کاج اور بیرونی دوروںمیں مصروف ہوگئے تھے۔ انہوں نے نیپال ‘ بھوٹان ‘ جاپان وغیرہ کا دورہ کیا اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی شرکت کی تھی تاہم مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کے دوران مودی ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ اپنی پارٹی کے حق میں شدت کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ بحیثیت بی جے پی لیڈر یہ ان کا پارٹی کے تئیں اپنا فریضہ ہوسکتا ہے لیکن بحیثیت وزیر اعظم انہیں ایک سطح کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہوتی ہے۔ انہیں اس کرسی کا وقار متاثر اور مجروح ہونے سے بچانا چاہئے جس پر وہ براجمان ہیں۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی وزارت عظمی کی کرسی کا وقار بھی نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔وہ ملک کے سرکاری کام کاج اور ملک کے عوام کو درپیش انتہائی سنگین مسائل پر توجہ دینے کی بجائے مہاراشٹرا جیسی ریاست میں درجنوں انتخابی جلسوں سے خطاب میں مصروف ہیں۔ ان کے جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کے نتیجہ میں کافی وقت لگ رہا ہے اور اس دوران وہ سرکاری کام کاج پر کوئی توجہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دوروں کے لئے جو اخراجات ہو رہے ہیں وہ بی جے پی برداشت نہیں کرتی۔ بحیثیت وزیر اعظم جب وہ کسی ریاست کا دورہ کرتے ہیں تو اس کے اخراجات سرکاری خزانہ پر عائد ہوتے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کی انتخابی مہم اور نریندر مودی کے ریلیوں اور جلسوں سے خطاب پر جو اخراجات عائد ہو رہے ہیں وہ ٹیکس دہندگان کی رقم ہے۔ بی جے پی ٹیکس دہندگان کی رقم سے اپنے حق میں انتخابی مہم چلا رہی ہے اور مہاراشٹرا کے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم جہاں کہیں جاتے ہیں ان کے پروٹوکول کے مطابق کئی طرح کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب کچھ مہاراشٹرا میں کیا جا رہا ہے۔ انتخابات سے قبل جلسوں اور ریلیوں سے خطاب ایک سیاسی عمل ہے۔ حالانکہ اسمبلی انتخابات ہریانہ میں بھی ہو رہے ہیں لیکن مودی کی ساری توجہ مہاراشٹرا پر ہے جہاں کانگریس۔ این سی پی کو گذشتہ تین معیادوں سے اقتدار حاصل تھا۔ مودی کے جلسوں سے ایک اور بات واضح ہوگئی کہ انتخابی مہم کے دوران جو تنقیدیں اور جوابی تنقیدیں ہو تی ہیں خود وزیر اعظم ان کا حصہ بن گئے ہیں۔ انتخابی مہم میں گراوٹ کی جو روایت پیدا ہوگئی ہے وزیر اعظم اس کا حصہ بنتے ہوئے اپنی کرسی کے وقار کو مجروح کر رہے ہیں۔ انہیں سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور اپنی پارٹی کو مہاراشٹرا میں اقتدار دلانے کی تگ و دو میں ایسی باتوں کا پاس و لحاظ نہیں رہ گیا ہے جو ان کے عہدہ سے وابستہ ہیں۔ یقینی طور پر ماضی میں بھی پیشرو وزرائے اعظم نے اپنی اپنی پارٹی کے حق میں مختلف ریاستوں میں انتخابی مہم چلائی تھی لیکن نریندر مودی مہاراشٹرا میں جتنی تعداد میں جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ مودی نے مہاراشٹرا میں انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی دلانے کا ذمہ اپنے سر پر لے لیا ہے۔ خاص طور پر چونکہ ریاست میں شیوسینا کے ساتھ بی جے پی کا ربع صدی پر محیط اتحاد بھی ختم ہوگیا ہے ایسے میں نریندر مودی سمجھتے ہیں کہ پارٹی کو کامیابی دلانے کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ سب کچھ پارٹی کے نقطہ نظر سے سوچ رہے ہیں اور انہیں اپنے عہدہ اور اس عہدہ سے وابستہ وقار اور بردباری کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں رہ گیا ہے۔ ان کے پیش نظر صرف انتخابی کامیابی ہے۔ مہاراشٹرا میں مودی کے جلسوں کی تعداد سے یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کا بھی خوف لاحق ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں کامیابیوں کے بعد سے مختلف ریاستوں میں جتنے بھی ضمنی انتخاب ہوئے ہیں ان سب میں بی جے پی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کے حوصلے بلند ہوئے تھے اور اگر مہاراشٹرا میں بی جے پی کو اقتدار حاصل نہیں ہوتا ہے تو اس سے مرکزی حکومت کی مقبولیت پر بھی اثر ہوگا اور ملک کے عوام میں حکومت کے تئیں منفی خیالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی اندیشے کے تحت نریندر مودی نے مہاراشٹرا میں درجنوں انتخابی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی حکومت کے تئیں عوام میں منفی تاثر پیدا نہ ہونے پائے اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر دوسری ریاستوں میں بھی اس کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں اور مودی کی مقبولیت کے جو دعوے ہیں ان کی قلعی کھل جائے گی۔