عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
نریندر مودی کا کلین انڈیا مشن
ہندوستان میں صاف ستھرا ماحول بنانے کی مہم نئی نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی صاف ستھرا ہندوستان بنانے کے لئے عوام سے رائے طلب کررہے ہیں۔ صفائی کے لئے عوام کی رائے حاصل کرنے کی کوشش نیکی اور پوچھ پوچھ کے مترادف ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ انھیں پاک و صاف ماحول دستیاب ہو۔ سرکاری سطح پر ذمہ داریوں و فرائض کو انجام دینے کا دیانتدارانہ مظاہرہ ہوتا ہے تو صاف و ستھرا ہندوستان یقینی ہوگا۔ جن سرکاری شعبوں میں بدعنوانیوں، رشوت ستانی اور سستی و کاہلی کا صفایا نہیں ہوپایا وہاں سرکاری مشنری عوام کو ایک صاف ستھرا ماحول کس طرح فراہم کرے گی۔ وزیراعظم مودی چاہتے ہیں کہ 2 اکٹوبر سے ملک بھر میں صاف ستھرا ہندوستان ’’سوچھ بھارت‘‘ کے عنوان سے پراجکٹ شروع کردیا جائے۔ سب سے پہلے تو عوام الناس میں صفائی کی بیداری مہم پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہر ایک شہری و باشندہ میں اپنے اطراف و اکناف کے علاقوں کو صاف ستھرا رکھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ صفائی کے تعلق سے سرکاری مہم کے اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں۔ عوام کی اکثریت صفائی کا خیال اس لئے نہیں رکھتی کیوں کہ خود سرکاری نظم و نسق شہریوں کو ایک پاکیزہ ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ کچرے کے انبار جب سڑکوں پر ڈالے جاتے ہیں تو ان کی بروقت صفائی نہیں ہوتی جس سے یہ گندگی دن بہ دن بڑھتی جاتی ہے۔ ہندوستان میں جب گٹکھا، پان دیگر تمباکو نوشی کے چیزیں عام ہوں تو صاف و صفائی کی توقع کرنا فضول سمجھا جائے گا۔ ہندوستان ایک غیر صحتمندانہ ماحول اور امراض سے بھرا پڑا ہے۔ اس کے باوجود مودی سال 2019 ء تک ہر گھر میں ایک بیت الخلاء بنانے کی مہم چلانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کو عالمی درجہ کا ملک بنانے کی جستجو کی ہر گوشے سے قدر کی جائے گی بشرطیکہ یہ جستجو کارگر ہو۔ مودی کا پسندیدہ پروگرام وقت کا تقاضہ ہے کیوں کہ ہندوستان کی 48 فیصد شہری آبادی کو بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں تو صورتحال اس سے زیادہ ابتر ہے جہاں 60 فیصد آبادی صفائی سے محروم ہے۔ وزیراعظم نے تمام ہندوستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اطراف و اکناف کی صفائی کے لئے اپنی زندگی کے کم از کم 100 گھنٹے وقف کردیں۔ اس طرح حکومت کا ہر شعبہ بھی اپنے طور پر دیانتداری سے فرائض انجام دے تو شکایت دور ہوسکتی ہے مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ کئی محکمے ازخود لاپرواہی سے کام لیتے ہیں۔ وزیراعظم اپنے ناقص سرکاری محکموں کے ذریعہ ایک صاف ستھرا ہندوستان بنانے کے خواب کو ہرگز پورا نہیں کرسکیں گے کیوں کہ مودی کے منصوبہ کے مطابق ہر گھر میں بیت الخلاء تعمیر کیا جائے گا۔ یہ پروگرام ایک اچھے انفراسٹرکچر کے بغیر کامیاب نہیں ہوگا۔ جب کسی پراجکٹ کو پورا کرنے کے لئے اس کا معاون اسٹرکچر ہی مناسب نہ ہو تو یہ بے کار ثابت ہوتا ہے۔ ہر گھر کے لئے بیت الخلاء ضروری ہے مگر اس سے زیادہ یا یکساں طور پر بھی اہمیت انفراسٹرکچر کی فراہمی جیسے پانی کی سربراہی، فضلاء یا گندے پانی کی نکاسی اور کچرے کی صاف صفائی کے لئے اقدامات ہیں حکومت جب عوام الناس کو پانی کی سربراہی سے قاصر ہوتی ہے تو وہاں گندگی کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ مودی کے اس پروگرام کو کئی چیالنجس سے گزرنا پڑے گا کیوں کہ ہندوستان میں گندگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہر سال 2 لاکھ شیرخوار فوت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آلودہ غذا اور پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے دست و قئے سے مربوط امراض میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں گندگی پیدا ہونا شروع ہوتی ہے تو جلدی امراض بڑھ جاتے ہیں جب فضائی آلودگی حد سے زیادہ بڑھ جائے تو نظام تنفس پر اثر پڑتا ہے۔ کمپنیوں، موٹر گاڑیوں اور جگہ جگہ گھریلو صنعتوں سے نکلنے والی گندگی سے آنکھوں کی سوزش، آنتوں کی سوزش اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔ ہر شہر اور گاؤں میں صاف صفائی کی ذمہ داری متعلقہ میونسپل کارپوریشن کے تفویض ہوتی ہے۔ مگر یہ محکمے شروع سے ہی لاپرواہی اور تساہلی کے لئے بدنام ہیں۔ جس ملک میں لوگ صبح ہی ریلوے ٹریکس کو رفع حاجت کے لئے استعمال کرتے ہیں تو یہ حکومتوں کی ناکام پالیسیوں اور نظم و نسق کی ابتری کا کھلا ثبوت ہے۔ہندوستان کے سماجی انفراسٹرکچر کو جب تک مضبوط نہیں بنایا جائے گا، شہریوں کو صاف ستھرا ہندوستان دینے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ ہندوستانی عوام کو نریندر مودی کے نعرے ’’اچھے دن‘‘ آنے کا ہنوز انتظار ہے۔ اب انھیں ’’سوَچ بھارت‘‘ کی مہم سے جوڑنے کی کوشش کرکے اچھے دنوں کے نعرے کو فراموش کرانے کی ترکیب تیار کی گئی ہے اس لئے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے کہاکہ مودی کے اچھے دن نہیں بلکہ ہندوستان میں رونے کے دن آئے ہیں۔ جس ملک میں غربت زدہ آبادی کو رہنے کیلئے چھت نہیں ہے وہاں صاف صفائی کا مشن مرکز کی اب تک کی حکومتوں کے بے لگام منصوبوں کا حصہ ہی ثابت ہوگا اور عوام کی زندگیوں میں صاف ستھری تبدیلی نہیں آئے گی۔ کسی بھی مشن کی کامیابی کے لئے نیک نیتی ہی اصل کلید ہے۔
سی اے جی اور 2G اسکام
یو پی اے حکومت کے دوران ہونے والے 2G اسکام سے متعلق گڑھے مُردے اُکھاڑتے ہوئے یہ تشہیر کی جارہی ہے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی حکومت میں ہونے والے اسکامس اور بدعنوانیوں کا علم تھا مگر اُنھوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔ یہ انکشاف کوئی نیا نہیں ہے مگر سابق کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل ونود رائے نے اپنی سرکاری خدمات کے دور کی یادداشت کو یوں بیان کیا ہے کہ کمپٹرولر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق یو پی اے حکومت میں 2G اسکام سے ملک کو 1.76 لاکھ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا تھا۔ 2G اسکام ہو یا کوئلہ اور سی ڈبلیو جی اسکام اس میں کروڑہا روپئے کی دھاندلیاں ہوئیں۔ 2G اسپکٹرم اسکام میں ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے پارٹی کے قائدین و مرکزی وزراء کے نام منظر پر آنے کے بعد انھیں جیل بھی ہوئی تھی مگر سب کے سب سیاسی سہارے سے قانون کو مات دے کر رہا ہوئے ہیں۔ سابق چیف منسٹر ٹاملناڈو کروناندھی کی دختر کنی موزی ہو یا سابق وزیر ٹیلی کام اے راجہ یا اس وقت کے وزیر کامرس اور صنعت کمل ناتھ کی کارکردگی مشکوک نگاہی سے دیکھی جاچکی ہے مگر اس سے ملک کو کیا حاصل ہوا؟ کچھ نہیں۔ اب سابق کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل ونود رائے کے تازہ انکشاف سے مجرمین یا ملزمین کا کچھ خسارہ ہونے والا نہیں ہے۔ یو پی اے حکومت کو چلانے میں وزیراعظم کی حیثیت سے منموہن سنگھ نے جو رول ادا کیا اس بارے میں وہ خود اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں۔ ونود رائے کے بیان کو میرٹ کی اساس پر اہمیت دی جائے تو ملک بھر میں ہونے والے تمام اسکامس کی جانچ کرائی جانی چاہئے۔ ہندوستان میں یہ ایک بڑی بدبختی کی بات ہے کہ سرکاری یا خانگی شعبہ دونوں جگہ دیانتدار قائدین کا فقدان رہا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر رہنے والوں میں قائدانہ صلاحیتیں مفقود تھیں تو ان کی قیادت کا معیار بھی افسوسناک حد تک گھٹیا تھا مگر وزیراعظم کی حیثیت سے منموہن سنگھ نے اپنی دونوں میعادوں کے دوران متوازن رول ادا کیا۔ اگرچیکہ ان کے ناقدین انھیں کئی قائدین کے اشاروں پر کام کرنے والے کٹھلی پتلی وزیراعظم بھی کہا ہے۔ ہندوستان کے لئے اس سے زیادہ بڑی بدبختی کیا ہوگی کہ اسکامس کے رونما ہونے کے باوجود خاطی قائدین قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اب مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت آئی ہے تو ظاہر بات ہے کہ سابق حکمرانوں کے خلاف ختہ دار تیار کرنے کی ہرممکنہ کوشش کی جائے گی۔ اس وقت کوئی بھی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔ حتی الامکان کوشش کی جانی چاہئے کہ اسکامس کا احیاء نہ ہونے پائے۔